Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

72 - 188
مولانا شاہ احمد نورانی ؒ
مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی وفات کی خبر میں نے اسلام آباد میں سنی۔ جی ٹین تھری میں واقع جامعہ صدیقہ للبنات میں بخاری شریف کے سبق کے آغاز کی تقریب تھی، جامعہ کے مہتمم مولانا عبد الرشید کے ارشاد پر طالبات کو پہلا سبق پڑھایا۔ اس کے بعد اسلام آباد کے سرکردہ علماء کرام مولانا قاری محمد نذیر فاروقی، مولانا محمد رمضان علوی، مولانا پروفیسر ڈاکٹر احمد جان اور دیگر حضرات کے ساتھ ہم کھانے کے دستر خوان پر بیٹھے تھے کہ مولانا محمد رمضان علوی کو ان کے کسی دوست نے فون پر اطلاع دی کہ مولانا شاہ احمد نورانیؒ کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خبر سنتے ہی محفل سوگوار ہوگئی اور مولانا نورانیؒ کی زندگی اور خدمات کے حوالہ سے مختلف امور کا تذکرہ ہونے لگا۔ وہاں سے فارغ ہو کر مجھے ایک دو جگہ جانا تھا، اس دوران معلومات حاصل کرتے رہے اور کچھ تفصیلات معلوم ہوئیں۔ خیال تھا کہ اگر اسلام آباد میں جنازہ ہو تو اس میں شرکت ہو جائے۔ مگر پتہ چلا کہ میت کراچی لے جائی جا رہی ہے اور جنازے کا پروگرام کراچی میں ہی ہے، چنانچہ سوگوار دل کے ساتھ شام کو گوجرانوالہ واپس چلا آیا۔
مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کا نام پہلی بار 1970ء میں سنا جب وہ کراچی سے جمعیۃ علماء پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر دھیرے دھیرے قومی سیاست کے افق پر آگے بڑھتے چلے گئے۔ اس وقت جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ سیال شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ قمر الدین سیالویؒ تھے۔ لیکن اس کے بعد مولانا نورانیؒ کو جے یو پی کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ آخر عمر تک اس منصب کے ساتھ قومی سیاست میں متحرک کردار ادا کرتے رہے۔
جمعیۃ علماء پاکستان کے نام سے سیاسی جماعت سب سے پہلے دیوبندی مکتب فکر کے جمعیۃ علماء ہند سے تعلق رکھنے والے علماء نے قائم کی تھی۔ اس کے سرکردہ علماء کرام میں حضرت مولانا محمد صادقؒ آف کھڈہ کراچی، حضرت مولانا عبد الحنانؒ آف راولپنڈی، حضرت مولانا مفتی محمد نعیم لدھیانویؒ ، حضرت مولانا سید گل بادشاہؒ آف سرحد، حضرت مولانا مفتی ضیاء الحسن لدھیانویؒ آف ساہیوال اور حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ آف گوجرانوالہ شامل تھے۔ یہ سب جمعیۃ علماء ہند سے تعلق رکھتے تھے۔جبکہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی قیادت میں کام کرنے والی جمعیۃ علماء اسلام کا جمعیۃ علماء ہند سے تحریک پاکستان کی حمایت یا مخالفت کے مسئلہ پر اختلاف تھا۔ چنانچہ مذکورہ بالا حضرات نے جمعیۃ علماء پاکستان کے نام سے ایک تنظیم قائم کر کے اپنے رفقاء کو منظم کرنا چاہا مگر اس وقت کے حالات میں وہ آگے نہ بڑھ سکے۔ میں نے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ سے متعدد بار اس کا تذکرہ سنا ہے اور ان کے کاغذات میں اس جمعیۃ کی کچھ کاروائیاں بھی دیکھی ہیں۔ مگر دیوبندی مکتب فکر کی جمعیۃ علماء پاکستان متحرک نہ ہو سکی اور بریلوی مکتب فکر نے جمعیۃ علماء پاکستان کے نام سے تنظیم قائم کر کے کام شروع کر دیا۔ تب سے یہ پلیٹ فارم بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی سیاسی تگ و تاز کے لیے مخصوص ہے۔
ایک دور میں جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ آلو مہار شریف ضلع سیالکوٹ کے سجادہ نشین صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ تھے۔ وہ قیام پاکستان سے قبل مجلس احرار اسلام میں شامل رہے ہیں اور ان کا شمار احرار کی صف اول کی قیادت میں ہوتا تھا۔ ان کی رہائش گوجرانوالہ میں تھی اور حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کا ان کے ساتھ دوستانہ تعلق تھا۔ اس لیے مجھے بھی ان کے پاس حاضر ہونے کا موقع ملتا رہتا تھا اور نیاز مندی کا یہ تعلق آخر وقت تک رہا۔ 1970ء کے انتخابات سے قبل ان کی بجائے حضرت خواجہ قمر الدین سیالویؒ کو جے یو پی کا سربراہ چنا گیا۔ الیکشن کے بعد جب قومی اسمبلی میں جمعیۃ علماء پاکستان کے سات منتخب ارکان پر مشتمل پارلیمانی گروپ مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی سربراہی میں قائم ہوا تو ان کی صلاحیتوں اور ابھرتی ہوئی شخصیت کے پیش نظر جے یو پی کی صدارت کا منصب بھی انہیں کو سونپ دیا گیا۔ جے یو پی کے تنظیمی محاذ پر انہیں مولانا عبد الستار خان نیازیؒ کی رفاقت میسر آئی جن کا شمار تحریک پاکستان کے سرگرم کارکنوں میں ہوتا تھا اور وہ اس سے پہلے پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے۔ مولانا نیازیؒ اس سے قبل تحریک خلافت کے عنوان سے سیاسی میدان میں متحرک رہے تھے لیکن الیکشن میں جے یو پی کی نمایاں پیش قدمی کے بعد وہ مولانا نورانیؒ کے ساتھ میدان میں اترے اور دونوں کی مسلسل اور پرخلوص جدوجہد نے جمعیۃ علماء پاکستان کو چند سرکردہ علماء اور مشائخ کے حلقہ ہائے ارادت کے دائرہ سے نکال کر ایک عوامی سیاسی جماعت کا رنگ دے دیا۔
مولانا شاہ احمد نورانیؒ میرٹھ سے تعلق رکھتے تھے اور وہاں سے ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہوئے تھے۔ ان کے والد محترم مولانا عبد العلیم صدیقیؒ کا شمار مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کے خلفاء میں ہوتا تھا اور ان کی پیری مریدی کا سلسلہ پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ یورپ اور افریقہ کے دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ جبکہ مولانا نورانیؒ کی شادی مدینہ منورہ میں مولانا فضل الرحمن مدنیؒ کے خاندان میں ہوئی۔ مولانا نورانیؒ کو اردو ، انگریزی اور عربی کے علاوہ فارسی، فرانسیسی، سواحلی اور دیگر متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اور 70ء کے الیکشن سے قبل ان کی تگ و تاز کا میدان دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے والد مرحوم کے مریدوں اور عقیدت مندوں کے وسیع دائرہ میں پھیلا ہوا تھا جس میں خود مولانا نورانیؒ کی مساعی سے بھی خاصا اضافہ ہوا۔ مگر ان کے اصل جوہر قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد پارلیمانی محاذ پر کھلے اور انہوں نے بہت جلد ایک منجھے ہوئے پارلیمنٹرین کی حیثیت سے خود کو تسلیم کرا لیا۔
اس وقت قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد پہلے خان عبد الولی خان اور پھر ان کی گرفتاری کے بعد مولانا مفتی محمودؒ تھے جبکہ اپوزیشن میں ان کے ساتھ مولانا نورانیؒ ایک متحرک، مدبر اور صاف گو رہنما کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ 1973ء کے دستور کی تیاری اور پھر تحریک ختم نبوت میں انہوں نے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اور دستور میں اسلامی دفعات کو شامل کرانے اور پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے دستوری تحفظ میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ خان عبد الولی خان جلد گرفتار ہو کر جیل میں چلے گئے تھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بچے کھچے پاکستان کو سنبھالنے، ایک متفقہ دستور دینے، اور دستور میں اسلام کی بنیادی دفعات کو سمونے میں اس دور کی مختصر اپوزیشن نے جو شاندار کردار ادا کیا اس میں مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، پروفیسر غفور احمدؒ اور چودھری ظہور الٰہیؒ کا کردار ملک کی دستوری تاریخ میں ہمیشہ پاکستانی قوم کے محسنوں کے طور پر ذکر ہوتا رہے گا۔
1974ء میں جب ملک میں قادیانی گروہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک چلی تو اسی اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا محاذ سنبھالا اور اپنے اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی وجہ سے یہ مورچہ بھی سر کر لیا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن تعداد کے لحاظ سے اگرچہ بڑی نہیں تھی لیکن مذکورہ بالا بھاری بھر کم شخصیات اور ان کے بے داغ کردار نے اسے ایک طاقتور اپوزیشن کی حیثیت دے دی تھی۔ اور اپوزیشن کو یہ مقام دلوانے میں مولانا نورانیؒ کا کردار بھی نمایاں تھا۔
1977ء کے انتخابات سے قبل جب ملک کی نو سیاسی جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد کے نام سے مشترکہ پلیٹ فارم قائم کیا تو اس کے سربراہ مولانا مفتی محمودؒ تھے جبکہ مولانا نورانیؒ کی جمعیۃ علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل جناب رفیق احمد باجوہ کو قومی اتحاد کا سیکرٹری چنا گیا۔ 77ء کے انتخابات کے لیے قومی اتحاد کی انتخابی مہم اور پھر انتخابات میں دھاندلی کے خلاف عوامی جدوجہد کو منظم کرنے میں مولانا نورانیؒ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ قومی سیاست میں ان کی پختہ کاری اور عزم و استقامت کا ایک مظاہرہ اس وقت سامنے آیا کہ جب پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک کے دوران جو عوام کے دینی جذبات کی وجہ سے تحریک نظام مصطفیؐ کا عنوان اختیار کر چکی تھی، قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل اور مولانا نورانیؒ کے رفیق کار جناب رفیق احمد باجوہ نے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ساتھ خفیہ ملاقات کی تو مولانا نورانیؒ نے اس کا سخت نوٹس لیا۔ انہوں نے اپنے اس پرانے رفیق کی قربانی دینے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس نازک مرحلہ میں مولانا نورانیؒ اپنے اس رفیق کے لیے تھوڑی سی لچک بھی دکھا دیتے تو قومی اتحاد اور تحریک نظام مصطفیؐ دونوں کا شیرازہ بکھر جاتا۔ لیکن انہوں نے تحریک اور اس عظیم مقصد کی خاطر اپنے سیکرٹری جنرل کی قربانی دے کر اصول پرستی، بیداری اور استقامت کا شاندار مظاہرہ کیا اور ان کا یہ کردار تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
مولانا نورانیؒ نے 78 برس عمر پائی ہے اور 1970ء سے اب تک وہ قومی سیاست کا ایک متحرک کردار رہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں کے باری باری رکن رہے ہیں۔ ان کے حلقہ ارادت کا دائرہ دنیا کے کئی بر اعظموں تک وسیع ہے۔ وہ جوہر شناس تھے اور ہیروں کا کاروبار کرتے تھے۔ دولت کے حصول اور پرتعیش زندگی کے اسباب کبھی ان کی دسترس سے باہر نہیں رہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے سادہ زندگی گزاری ہے۔ میں نے کراچی صدر میں ان کی اس رہائش گاہ میں متعدد بار حاضری دی ہے جو نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک ان کا مسکن رہی ہے۔ یہ ایک فقیر منش عالم دین کی رہائش گاہ تھی جو کرائے کے فلیٹ میں تھی۔ ان کا رہن سہن کا انداز پرانے وضعدار اور باوقار علماء کی یاد تازہ کرتا تھا۔ اور ان کی مہمان نوازی اور ملنساری کے نقوش ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جایا کرتے تھے۔ ان کے مزاج میں بذلہ سنجی اور خوش طبعی کا پہلو نمایاں تھا۔ موقع محل کے مطابق ہلکے پھلکے فقرے چست کرنے میں انہیں کمال حاصل تھا اور وہ لمحوں میں کسی بھی محفل کو زعفران زار بنا دیا کرتے تھے۔ لیکن تہذیب و شائستگی کا دامن انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا جس کی شہادت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ ان کے ایک بڑے سیاسی حریف کی بیٹی جو خود بھی ان کی شدید سیاسی تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہیں، یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کی وفات پر جو تعزیتی بیان دیا ہے اس میں اس بات کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے کہ مولانا نورانیؒ اختلاف کا اظہار اور تنقید تہذیب کے دائرے میں رہ کر کیا کرتے تھے۔
مولانا نورانیؒ مسلکاً بریلوی تھے اور ڈھیلے ڈھالے نہیں بلکہ متصلب اور پختہ کار بریلوی تھے۔ اور میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ جہاں بھی مسلک کی بات آئی ہے ان میں کوئی لچک دیکھنے میں نہیں آئی۔ لیکن اس کے باوجود مشترکہ دینی معاملات میں انہوں نے مشترکہ جدوجہد اور رابطہ و معاونت سے کبھی گریز نہیں کیا۔ سیاسی معاملات ہوں یا دینی، ملک کی مختلف الخیال جماعتوں اور حلقوں کے درمیان رابطہ و مفاہمت کے فروغ اور اتحاد و اشتراک کے اہتمام میں ان کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔
اپنی زندگی کے آخری سالوں میں افغانستان میں طالبان حکومت کی حمایت، افغانستان کی قومی خود مختاری و آزادی کے تحفظ، امریکہ کی استعماری یلغار کی مخالفت، اور پاکستان کے قومی اور داخلی معاملات میں امریکی مداخلت کی مذمت و مزاحمت میں انہوں نے جو شاندار کردار ادا کیا وہ ہماری قومی تاریخ کے ایک مستقل باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی دینی قوتوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے سیاسی اتحاد قائم کیا تو اس کی سربراہی کے لیے سب سے نمایاں اور حقدار شخصیت انہی کی سامنے آئی۔ اور وہ ملک میں جمہوری اقدار کی بحالی، قومی خود مختاری کے تحفظ، دستور کی بالادستی اور عالمی سطح پر امریکی استعمار کی اسلام دشمنی کے خلاف جدوجہد کی قیادت کرتے ہوئے اس شان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے کہ پوری قوم غم و اندوہ میں ڈوب گئی۔ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور دینی کارکن ان کی جدائی کی کسک اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہیں اور بلا امتیاز ہر طبقہ ان کی دینی و قومی خدمات پر خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارازانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۴ دسمبر ۲۰۰۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter