Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

80 - 188
الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم
غالباً 56ء یا 57ء کا واقعہ ہے میں گکھڑ کے پرائمری سکول میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک روز جمعہ کے موقع پر ایک بزرگ تشریف لائے، ان کے ساتھ ایک قاری صاحب تھے۔ حضرت والد محترم مدظلہ نے ان صاحب کو جمعہ کے اجتماع میں کچھ کہنے کا موقع دیا، انہوں نے قرآن کریم صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے اور حفظ قرآن کریم کی اہمیت مختصر لفظوں میں بیان کی۔ ان کے ساتھی قاری صاحب نے قرآن کریم کی چند آیات کی تلاوت فرمائی اور ان صاحب نے مسجد کے نمازیوں سے کہا کہ اگر آپ حضرات اس مسجد میں قرآن کریم کی تعلیم کا مدرسہ قائم کرنے پر آمادہ ہوں تو قاری صاحب کی آدھی تنخواہ ہم دے دیا کریں گے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بزرگ گکھڑ سے تین میل دور جی ٹی روڈ پر واقع گتہ مل کے مالک سیٹھی محمد یوسف صاحب ہیں اور ان کے ساتھ قاری صاحب گتہ مل کالونی کی مسجد کے خطیب مولانا قاری عبد الحفیظ ہیں جن کا تعلق شیدو شریف اکوڑہ خٹک سے ہے۔
سیٹھی محمد یوسف صاحب کی ترغیب پر گکھڑ میں مدرسہ تجوید القرآن کے نام سے حفظ قرآن کریم کی درسگاہ قائم ہوئی اور قاری اعزاز الحق امرہویؒ بطور استاذ تشریف لائے۔ اس مدرسہ کے ابتدائی طلبہ میں ایک میں بھی تھا جسے سکول سے اٹھا کر حضرت والد صاحب مدظلہ نے قرآن کریم حفظ کرنے کے لیے اس مدرسہ میں داخل کرا دیا تھا۔ سیٹھی صاحب مرحوم نے قرآن کریم کے مدارس کے قیام کو اپنی زندگی کا مشن قرار دے رکھا تھا۔ اس مقصد کے لیے تعلیم القرآن ٹرسٹ قائم تھا اور اس کے ذریعہ انہوں نے پاکستان کے مختلف حصوں میں مذکورہ بالا ترغیب کے ساتھ حفظ قرآن کریم کے مدارس کے قیام کی مہم چلائی۔ بعد میں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں آنے سے قبل مجھے گتہ مل کالونی کی مسجد میں کم و بیش ڈیڑھ دو سال خطابت کے فرائض سرانجام دینے کا موقع ملا تو اس کام سے زیادہ واقفیت حاصل ہوئی اور معلوم ہوا کہ تعلیم القرآن ٹرسٹ کے تحت ملک بھر میں کم و بیش گیارہ سو مدارس کی امداد کی جاتی ہے۔ یہ مدارس آہستہ آہستہ خود کفیل ہوتے گئے اور ٹرسٹ کی مدد بھی کم ہوتے ہوئے چند مدارس تک محدود رہ گئی۔ مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان میں حفظ قرآن کریم اور تجوید کے ہزاروں مدارس کے قیام کے پیچھے الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم کی اس محنت کو بنیادی کردار کی حیثیت حاصل ہے۔
سیٹھی صاحب ایک نو مسلم باپ کے فرزند تھے۔ ان کے والد سیالکوٹ روڈ گوجرانوالہ پر واقع بستی ترگڑی کے ہندو خاندان سے تعلق رکھتے جو مسلمان ہوئے اور خدمت قرآن کو نہ صرف اپنا مشن بنایا بلکہ اپنے بیٹے کو مستقل طور پر اس کام پر لگا دیا۔ آخر عمر میں سیٹھی صاحب مرحوم کی توجہ سعودی عرب میں حفظ قرآن کریم کے مدارس قائم کرنے پر مبذول ہوگئی تھی اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں اس وقت قرآن کریم کے حفظ اور قراءت کا جو ذوق پورے عالم اسلام کے لیے قابل فخر اور لائقِ تقلید مقام حاصل کر چکا ہے اس کی شروعات بھی سیٹھی محمد یوسف صاحب مرحوم کے ہاتھوں ہوئی۔ اس کی تفصیل اعظم گڑھ انڈیا کے معروف علمی جریدہ ’’معارف‘‘ کے مئی 1990ء کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک مکتوب میں ملاحظہ کریں جو جناب عبد الملک جامی نے ’’مکتوب مدینہ منورہ‘‘ کے طور پر تحریر فرمایا تھا۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ایک موقع پر اہل لاہور سے خطاب کے دوران شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی خدمتِ قرآن کریم اور اس کے عالمگیر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ لاہوریو! اگر تم قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے پر آمادہ نہ ہوگے تو دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے ایک سکھ گھرانے میں مولانا احمد علی کو پیدا کر کے انہیں قرآن کریم کے علوم کی اشاعت کے کام پر لگا دیا ہے۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے والد محترم بھی نومسلم تھے اور سکھ سے مسلمان ہوئے تھے۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ ان کے گاؤں ’’جلال‘‘ اور سیٹھی محمد یوسف مرحوم کے والد کے گاؤں ’’ترگڑی‘‘ میں چند میل کا فاصلہ ہے اور دونوں کے مسلمان ہونے کا زمانہ بھی ایک ہے۔ جناب عبد الملک جامی کا مکتوب ملاحظہ کیجئے اور قرآن کریم کے اعجاز کی آج کے دور میں ایک زندہ شہادت پڑھ کر ایمان تازہ کیجئے۔
16/17 رمضان المبارک چہار شنبہ (یوم الاربعاء)
محب گرامی قدر جناب مولانا ضیاء الدین اصلاحی!
وفقنا اللہ وایاکم لما یحب ویرضیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں ابھی حرم شریف سے آرہا ہوں، وہاں آج ہمارا حفلہ سنویہ (سالانہ جلسہ) تھا۔ جلسہ یہاں دارالقضاء کی اصطلاح ہے، ہمارے ہاں کہتے ہیں آج ’’پیشی‘‘ ہے، یہاں کہتے ہیں آج ’’جلسہ‘‘ ہے۔
’’ہمارا‘‘ کی تشریح یہ ہے کہ یہ عاجز پچیس برس جس کام میں مشغول رہا وہ جماعۃ تحفیظ القرآن کا کام تھا۔ آج جو تقریر (رپورٹ) سنائی گئی اسی میں بتایا گیا کہ اس وقت ہمارے 135 مدرسے ہیں للبنین (ذکور)، لڑکیوں کے اس کے علاوہ ہیں۔ لڑکوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار سے اوپر ہے اور لڑکیوں کی چھ ہزار سے زیادہ ہے۔ جن لڑکوں نے اس سال پورا قرآن حفظ کرنے میں کامیابی حاصل کی ان کی تعداد 45 ہے۔ دس پاروں میں پاس ہونے والے تین سو ہیں اور پانچ پاروں میں کامیاب ہونے والے پانچ سو۔ یہ صرف مدینہ منورہ کے مدارس کے اعداد و شمار ہیں۔ پچھلے دنوں جدہ گیا تھا وہاں معلوم ہوا کہ طلبہ کی تعداد 18 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اور اس وقت یہ مدارس سعودی عرب میں اقصیٰ جنوب سے اقصیٰ شمال تک پھیلے ہوئے ہیں۔ طلبہ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوگی۔ ہمارے ملک فہد صاحب جو اب ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں، یعنی رسمی و سرکاری طور پر ان کا یہی خطاب ہے، اس شخص کو بھی حفظِ قرآن سے بہت دلچسپی ہے۔ کئی سال سے اعلان فرما دیا ہے کہ قید خانوں میں جو قیدی قرآن مجید حفظ کر لے گا اس کی آدھی مدت معاف کر دی جائے گی۔ اس طرح قید خانوں میں لوگ حفظ کرنے پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ یہاں یہ مدارس نائٹ اسکول کے طور پر ہیں، دن میں بچے اپنے اسکولوں میں جاتے ہیں، عصر سے مغرب تک ہمارے ہاں آتے ہیں۔ بعض مدرسے عشاء تک بھی ہیں اور چند ایسے بھی ہیں جو سارا دن جاری رہتے ہیں۔
جو بات اصل کہنے کی ہے وہ ہے کہ ان مدارس کی بنیاد ایک پاکستانی تاجر نے رکھی، وہ بھی ایک لاعلمی کی بنا پر۔ رمضان کے مہینہ میں (پچیس برس پہلے) وہ مکہ مکرمہ آئے ہوئے تھے، وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ کچھ لوگ قرآن ہاتھ میں لے کر نماز (نوافل) کی امامت کرا رہے ہیں۔ شوافع کے یہاں چونکہ یہ جائز ہے وہ اس میں مضائقہ نہیں سمجھتے، اور انسان کی طبعی سہولت پسندی کے اسی جواز نے ان کے ہاں حفظِ قرآن تقریباً ختم کر دیا۔ یہ سارے علاقے، شافعی علاقے جو میں نے جنوبی ہند (مدراس) سے لے کر ملایا، سنگاپور، انڈونیشیا، تھائی لینڈ تک دیکھے وہاں یہی عالم پایا۔ وجہ شافعی مسلک جو ان ملکوں میں عام ہے۔ انڈونیشیا میں قراءت کا زور ہے، عورتیں بھی خوب قاری ہوئی ہیں مگر حافظوں کا کال ہے۔ ہاں یہ پاکستانی تاجر جن کے دفترِ حساب میں لاکھوں کا اجر و ثواب لکھا جا رہا ہے خود ایک نومسلم باپ کے بیٹے تھے۔ ان کا نام محمد یوسف سیٹھی تھا اور ان کے والد جو ہندو سے مسلمان ہوئے تھے ان کا نام عبد الرحیم رکھا گیا تھا۔ درحقیقت یہ ان کے والد ہی کی وصیت تھی جس کی تعمیل میں انہوں نے پاکستان میں قرآن مجید کے مدرسے کھلوانے شروع کیے تا آنکہ وہاں بھی طلبہ کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ سیٹھی صاحب مرحوم کا مقصود صرف حفظِ قرآن نہیں تھا بلکہ قرآن فہمی اور اس پر عمل بھی ان کی اسکیم میں داخل تھا۔
خیال فرمائیں کہ جب میں نے آغاز کار میں بعض مدارس طلبہ کی قلت مدرسین کی عدم قابلیت، اہل محلہ کی غفلت و بے اعتنائی کی بنا پر بند کر دیے تو مرحوم سیٹھی صاحب نے فرمایا ’’بھائی میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ اگر ایک بچے نے مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھ لی تو میرا تو پیسہ وصول ہوگیا‘‘ ۔قرآن فہمی کے ضمن میں مدارس میں برابر مذاکرات اور محاضرات کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ اب سے پچیس برس پہلے حرم شریف کے علاوہ کہیں کسی مسجد میں تراویح نہیں ہوتی تھی، اب یہ ہے کہ 135 مسجدوں میں تو مدینہ منورہ میں تراویح ہو رہی ہے اور اسی طرح دوسرے شہروں میں۔ یہ ہمارے ہی بچے ہیں جو ان مساجد میں جا کر تراویح پڑھاتے ہیں۔ اس سال مسجد قبا، مسجد میقات، مسجد الشہداء (امیر حمزہ) جو شہر کی سب سے شاندار وسیع و عریض مساجد ہیں، ہمارے ہی طالب امامت کرا رہے ہیں۔ بلکہ خود حرم شریف میں بھی ہمارا تعلیم و تربیت یافتہ طالب تراویح پڑھا رہا ہے اور وہ ایسے والہانہ انداز میں پڑھتا ہے کہ لوگ اس کے عاشق ہو گئے ہیں۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ تراویح (حرم شریف) کے لیے کسی ہندی یا پاکستانی الاصل بلکہ غیر عربی کو منتخب کیا گیا ہو۔ اس مقری کا نام محمد ایوب ہے اور ان کے باپ جو برما سے ہجرت کر کے آئے تھے ابھی حیات ہیں، برما کی بجائے ان کا پاسپورٹ پاکستانی تھا۔
بڑی ناسپاسی ہوگی اگر میں اس موقع پر مرحوم و مغفور الشیخ محمد صالح قزاز صاحب کا ذکر نہ کروں جو بعد میں رابطہ عالم اسلامی کے امین العام ہوگئے تھے، یوسف سیٹھی اگر بانی اول ہیں تو یہ بانی ثانی ہیں۔ سیٹھی صاحب نے جب اپنی اسکیم ان کے سامنے رکھی تو اس کے عاشق ہوگئے اور تن من دھن ہر طرح سے اس پر قربان۔ انہی کا دم تھا، ان ہی کا اثر و رسوخ کہ سیٹھی صاحب کو سارے ملک میں کام کرنے کی اجازت مل گئی۔ صالح قزاز صاحب جن کا ابھی اسی سال انتقال ہوا مرتے دم تک اسی کام میں منہمک رہے۔ سیٹھی صاحب کے انتقال کو شاید سات سال ہوئے، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی زید مجدہم فرماتے تھے کہ سیٹھی صاحب کا جس کمرہ (کراچی) میں انتقال ہوا وہ بوقت وفات قدرتی خوشبو سے بھرا ہوا تھا۔
یہ بھی امر واقعہ ہے کہ نومسلمین میں ایمان کی تازگی ہوتی ہے جوش و خروش ہوتا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا جوش و خروش اور قوت عملی دنیا کو معلوم ہے۔ مولانا احمد علی لاہوریؒ کے والد بھی نومسلم تھے، کتنا انہوں نے کام کیا۔ مولانا علی میاں بھی ان کے شاگرد ہیں اور عند اللہ قبولیت کی یہ نشانی کہ چھ ماہ تک ان کی قبر سے خوشبو آتی رہی۔ تبلیغی جماعت جو اس وقت دنیا میں مشہور ہے، مولانا الیاسؒ کے بعد اس کے دوسرے بانی حاجی عبد الرحمان ایک بنیے کے بیٹے تھے، خود مسلمان ہوئے اور پھر چودہ سو آدمیوں کو مسلمان کیا۔ پھر مسلمان کر کے چھوڑ نہیں دیا، شادی بیاہ، کام کاج، روزگار سے لگانا، تعلیم لانا سب کام کرتے تھے۔ اور ہاں ہمارے علامہ شبلیؒ بھی تو بالآخر ایک نومسلم خاندان سے تھے اور یوں تو علامہ اقبالؒ بھی۔
یہ بات خیال میں رہے کہ اب ہر شہر کی جماعت خود کفیل ہے اور جب سے جامعہ محمد بن سعود (ریاض) نے ان جماعتوں کو اپنی تنظیم میں لے لیا ہے آدھا خرچہ وہ دیتی ہے۔ اس سال ہمارا بجٹ 45 لاکھ (سعودی ریال) کا تھا۔ ایک غیر متعلق بات ہے محض معلومات کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ اس سال پاکستان سے (رمضان میں) عمرہ کے لیے 55 ہزار آدمی آئے ہیں، 22 لاکھ کی درخواست تھی حکومت انتظام نہیں کر سکی، فال نیک ہے۔ اس تعداد کی رسمی یعنی سرکاری تصدیق ابھی نہیں ہو سکی ورنہ یوں افواہ تو ستر ہزار تک ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
عبد الملک جامی
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۱ نومبر ۲۰۰۴ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter