Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

61 - 188
حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ
ملک کے نامور خطیب اور سپاہ صحابہ پاکستان کی سپریم کونسل کے چیئرمین مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ گزشتہ جمعہ کو 63 برس کی عمر میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی نماز جنازہ غلام ٰمحمد آباد فیصل آباد میں ان کی رہائش گاہ کے سامنے کھلے گراؤنڈ میں حضرت مولانا سید نفیس شاہ صاحب مدظلہ نے پڑھائی جس میں ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں علماء کرام اور مذہبی کارکنوں کے علاوہ فیصل آباد کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اور اس کے بعد انہیں ان کے قائم کردہ دینی مدرسہ جامعہ قاسمیہ میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے خاندان کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا جو قیام پاکستان کے وقت وہاں سے ہجرت کر کے آیا۔ انہوں نے دینی تعلیم جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں حاصل کی، دورۂ حدیث مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں پڑھ کر حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز سے سند فراغت حاصل کی اور اسی نسبت سے قاسمی کہلاتے تھے۔ انتہائی ذہین اور طباع ہونے کے باعث تحریر و تقریر کا ذوق طالب علمی کے دور سے ہی تھا اور انہوں نے اس دور کے معروف خطیب حضرت مولانا قاری لطف اللہ شہیدؒ سے استفادہ کیا جو جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے بانی حضرت مولانا عبد اللہؒ اور حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدیؒ کے بھائی تھے اور اپنے زمانے کے مقبول ترین عوامی خطیب تھے۔ پرانے حضرات کا کہنا ہے کہ مولانا ضیاء القاسمیؒ نے مولانا قاری لطف اللہ شہیدؒ کے طرز خطابت کو اپنایا۔ لیکن انہوں نے مسلسل محنت سے اس طرز خطابت کو اس حد تک آگے بڑھایا کہ ایک دور میں وہ پنجاب کا مقبول ترین انداز خطابت بن گیا، بیسیوں خطباء نے خطابت کے اس اسلوب کو اختیار کر کے اپنی خطابت کا جادو جگایا اور رفتہ رفتہ وہ انداز خطابت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے نام سے ہی منسوب ہوگیا۔
میرا طالب علمی کا دور تھا جب ملک میں دیوبندی بریلوی کشمکش عروج پر تھی اور عوامی سطح پر دیوبندی مسلک کی ترجمانی کے لیے مولانا ضیاء القاسمیؒ کا نام سب سے بڑے خطیب کے طور پر لیا جاتا تھا۔ ان کے جلسہ میں دور دراز سے لوگ اہتمام کر کے شریک ہوتے تھے اور ہزاروں بلکہ بسا اوقات لاکھوں افراد ان کے خطاب کو سننے کے لیے جمع ہو جاتے۔ خود ہم طالب علم دس دس میل تک سائیکلوں پر ان کا خطاب سننے کے لیے جایا کرتے تھے۔ان کی خطابت میں شیریں بیانی اور گھن گرج دونوں کا امتزاج تھا اور حسب موقع وہ ان میں سے کوئی بھی طرز اپنانے پر دسترس رکھتے تھے۔ ایک خطیب کی حیثیت سے ان کی جس خوبی نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ وہ صرف اپنے پسندیدہ یا مشنری موضوعات کے دائرہ میں محدود نہیں رہتے تھے بلکہ موقع محل کی مناسبت سے کسی بھی موضوع کو نباہ لیتے تھے اور کہیں بھی گفتگو یا خطاب کےلیے پہلے سے ذہنی طور پر تیار ہوتے تھے۔
مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ نے جمعیۃ علماء اسلام، تنظیم اہل سنت، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، اور سپاہ صحابہؓ میں مختلف اوقات میں جماعتی خدمات سر انجام دیں۔ وہ جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے سیکرٹری جنرل رہے اور 1970ء کے انتخابات کے دوران جمعیۃ کی انتخابی مہم میں انہوں نے پرجوش اور متحرک کردار ادا کیا۔ میں انہی کے دور میں بلکہ ان کی تجویز و تحریک پر جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کا سیکرٹری اطلاعات بنا اور ان کی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے کئی سال کام کرتا رہا۔ بعد میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے جمعیۃ کا الگ گروپ تشکیل دیا تو مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور ہزاروی گروپ کے اہم رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ وہ تنظیم اہل سنت پاکستان کے سیکرٹری جنرل رہے ہیں اور انہوں نے حضرت علامہ عبد الستار تونسوی، حضرت مولانا دوست محمد قریشی، اور حضرت مولانا سید نور الحسن بخاری جیسے زعماء کی رفاقت میں اہل سنت کے موقف کو آگے بڑھانے اور منوانے کے لیے اس پلیٹ فارم پر متحرک کردار ادا کیا ہے۔
قاسمی صاحب مرحوم نے مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ بھی کام کیا اور ایک دور میں وہ مجلس کے اہم عہدے داروں میں شامل رہے۔ 1985ء میں جب امتناع قادیانیت آرڈیننس کے نفاذ کے بعد قادیانیوں نے اپنا ہیڈکوارٹر لندن منتقل کیا اور ان کا سالانہ اجتماع وہاں منعقد ہونے لگا تو قادیانیوں کے سالانہ اجتماع کے بعد ختم نبوت کانفرنس کی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی، حضرت علامہ خالد محمود، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی، اور دیگر حضرات نے انٹرنیشنل ختم نبوت مشن تشکیل دے کر لندن کے ویمبلے کانفرنس سینٹر میں سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس کا آغاز کیا جس کے انتظامات بعد میں مجلس تحفظ ختم نبوت نے سنبھال لیے۔ پہلی کانفرنس کے لیے مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ، مولانا چنیوٹی، مولانا عبد الحفیظ مکی اور علامہ ڈاکٹر خالد محمود کے ہمراہ راقم الحروف کو بھی ایک ماہ پہلے لندن جا کر کانفرنس کے لیے کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ میرا لندن کا پہلا سفر تھا جس کے محرک مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ تھے۔ میں نے سفر بھی مولانا قاسمی اور مولانا چنیوٹی کے ساتھ کیا اور راستہ میں ایک دن کے لیے ہم استنبول رکے۔ بعد میں ان بزرگوں نے انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے نام سے مستقل جماعت بنا لی جبکہ میرا تعلق بحمد اللہ دونوں جماعتوں بلکہ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی ہر جماعت کے ساتھ رہا ہے اور اب بھی بحمد اللہ تعالیٰ بدستور ہے۔
1984ء کی تحریک ختم نبوت میں، جو سیالکوٹ کے مبلغ ختم نبوت اسلم قریشی کے مبینہ اغواء کے بعد شروع ہوئی تھی، مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کا کردار بہت نمایاں اور کلیدی تھا۔ انہوں نے آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی تشکیل اور اسے فعال بنانے کے لیے ملک کے مختلف حصوں کے دورے کیے اور پرجو ش محنت کی۔
مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دینی اور مسلکی معاملات میں انتہائی غیور تھے اور صرف خطابت میں ہی غیرت و حمیت کا اظہار نہیں کرتے تھے بلکہ عملاً بھی وہ مسائل و مشکلات کے حل کے لیے سرگرداں رہتے تھے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں جرأت و دلیری کا وافر حصہ عطا کیا تھا، وہ مشکل اوقات میں عافیت کا گوشہ تلاش کرنے کی بجائے مصیبت کے مقام پر ڈٹے رہنے کو ترجیح دیتے تھے اور کسی بات کی پروا نہیں کرتے تھے۔
مولانا ضیاء القاسمیؒ کی بیعت کا تعلق شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے تھا اور ان کا سب سے زیادہ جذباتی تعلق بھی حضرت مدنی سے ہی تھا۔ وہ حضرت مدنی کے بارے میں کوئی مخالف بات سننے کو تیار نہیں ہوتے تھے اور صرف رسمی یا جذباتی تعلق کی بجائے ان کا وظائف و اوراد کا ایک مستقل معمول بھی تھا جس کی وہ ہمیشہ پابندی کرتے تھے۔ آخری سالوں میں جبکہ مسلسل بیماری کی وجہ سے جوانی والی وہ بات باقی نہیں رہ گئی تھی تب بھی انہوں نے سپاہ صحابہ کے نوجوانوں کی جس طرح سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی اور مشکل سے مشکل مقام پر انہیں پشت پناہی مہیا کی، یہ انہی کا کام تھا اور اسی سے ان کی جرأت و حوصلہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
مولانا قاسمی مرحوم اسلامی نظریاتی کونسل کے بھی رکن رہے اور اسلامی قوانین کی ترتیب و تدوین میں انہوں نے حصہ لیا۔ اس حوالے سے ان کی ایک خوبی بار بار ذہن کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے کہ کسی علمی اور تحقیقی مسئلہ میں اگر خود کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے تو کسی دوسرے ساتھی سے پوچھنے میں انہیں کبھی حجاب نہیں ہوتا تھا اور وہ متعلقہ مسئلہ میں کسی دوسرے سے رہنمائی حاصل کرنے میں ہتک محسوس نہیں کرتے تھے۔ خود مجھ سے انہوں نے بہت سے مواقع پر مختلف مسائل کے بارے میں رائے لی اور یہ کہہ کر مجھے رائے دینے کو کہا کہ اس مسئلہ پر میرا مطالعہ نہیں ہے، تمہیں معلوم ہوگا اس لیے تم بتاؤ کہ مسئلہ کی نوعیت کیا ہے۔ یہ بڑائی کی بات ہے جو میں نے مولانا قاسمی مرحوم میں بطور خاص دیکھی۔
مولانا ضیاء القاسمیؒ دوستی اور دشمنی میں واضح رائے رکھتے تھے اور اس کے اظہار میں بھی انہیں کوئی تامل نہیں ہوتا تھا۔ وہ دوستوں کے دوست تھے اور جہاں دوستی ہوتی وہاں وہ سب باتیں بھول جایا کرتے تھے۔ آج وہ ہم میں نہیں ہیں تو ان کی بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں اور ایک مدت تک یاد آتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ہفت روزہ الہلال، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۱۲ جنوری ۲۰۰۱
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter