Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

10 - 188
حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ
غالباً ستائیسواں روزہ تھا کہ معمول کے مطابق صبح نو بجے کے قریب اخبار ہاتھ میں لیا تو اس کے دوسرے صفحہ پر ایک کالمی ایک سطری سرخی کے ساتھ کسی سیاہ حاشیہ کے بغیر چند سطری خبر تھی کہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہؒ انتقال کر گئے۔ زبان پر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا اور دل دوہرے رنج و غم میں ڈوب گیا۔ ایک صدمہ مولانا مرحوم کی وفات پر اور دوسرا قومی پریس کی بے خبری، سطحیت، ظاہر بینی یا بے حسی پر کہ ایک قومی اخبار کے نامہ نگار یا ایڈیٹر کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ جس شخص کی وفات کی خبر کو وہ چند سطروں میں غیر اہم جگہ پر شائع کر رہا ہے وہ ان سینکڑوں شخصیات پر اپنے علم و فضل، تقویٰ و طہارت اور دینی و ملی خدمات کے لحاظ سے بھاری ہے جن کی معمول کی سرگرمیاں بھی روزانہ اخبارات کے صفحۂ اول کی زینت بنتی رہتی ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ کا تعلق اس قافلۂ عزیمت و استقامت اور کاروانِ عزم و استقلال سے تھا جس نے برعظیم پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں فرنگی استعمار کی یلغار کے بعد اس کے اقتدار، کروفر، جاہ و جلال اور زرق برق تہذیب و ثقافت سے متاثر اور مرعوب ہوئے بغیر اسلامی تعلیمات و احکام اور اسلاف کی روایات کو نہ صرف سینے سے لگائے رکھا بلکہ پورے جوش و جذبہ کے ساتھ معاشرہ میں اس کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی سرگرم عمل رہا۔ اور آج اس قافلۂ حق و صداقت کی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ اسلامی دنیا کا یہ خطہ اسلامی روایات کے ساتھ وابستگی اور دینی حمیت و جذبہ کے لحاظ سے پورے عالم اسلام میں ممتاز اور مثالی حیثیت رکھتا ہے۔
مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ ۸ رمضان المبارک ۱۳۳۰ھ میں رشیدیہ رائے پور جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم مولانا مفتی فقیر اللہؒ اپنے وقت کے جید اور مجاہد عالم دین تھے جنہوں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ جیسے نابغہ روزگار علمی شخصیت کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے علم و فضل کے خزانوں سے اپنا دامن بھرا۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہؒ کی تعلیم و تربیت کے بیشتر مراحل مدرسہ رشیدیہ رائے پور جالندھر اور مدرسہ خیر المدارس جالندھر میں طے ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ، حضرت مولانا مفتی فقیر اللہؒ، حضرت مولانا عبد العزیز رائے پوریؒ، اور حضرت مولانا محمد ابراہیمؒ میاں چنوں جیسی علمی شخصیات نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے دورۂ حدیث خیر المدارس جالندھر میں مکمل کر کے حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ سے سندِ اجازت حاصل کی۔ اور ان کے علاوہ حدیث میں آپ کو اپنے وقت کے ممتاز محدثین حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، حضرت مولانا شبیر احمدؒ عثمانی، حضرت مولانا محمد زکریاؒ اور حضرت مولانا فقیر اللہؒ نے بھی سند مرحمت فرمائی۔ فراغت کے بعد کم و بیش بیس سال تک خیر المدارس جالندھر میں ہی تعلیم و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد خیر المدارس ملتان میں منتقل ہوئے اور مدرسہ رشیدیہ رائے پور جالندھر سے ساہیوال میں منتقل ہوگیا۔ یوں مولانا عبد اللہ رائے پوریؒ کچھ عرصہ بعد جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں منتقل ہوگئے جہاں آپ وفات تک کم و بیش بتیس برس تک علمِ حدیث کا درس دے کر تشنگانِ علوم نبویؐ کو اپنے چشمۂ فیض سے سیراب کرتے رہے۔
حضرت مفتی فقیر اللہؒ کے تینوں فرزند مولانا محمد عبد اللہؒ، مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی اور مولانا قاری لطف اللہؒ قیام پاکستان کے بعد ساہیوال منتقل ہوگئے۔ اس شہر میں جو اس وقت منٹگمری کہلاتا تھا، جامعہ رشیدیہ کے قیام و ترقی میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ تینوں بھائیوں کو اللہ رب العزت نے علم و فضل اور جذبہ و عزم کے ساتھ ساتھ حق گوئی اور بے باکی کی نعمت سے بھی مالامال فرمایا تھا۔ چنانچہ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کے حوالہ سے جسٹس محمد منیر نے اپنی انکوائری رپورٹ میں تینوں بھائیوں کا نمایاں طور پر ذکر کیا ہے۔ اس تحریک میں تینوں بھائی گرفتار ہوئے اور مولانا محمد عبد اللہؒ ساہیوال اور میانوالی کی جیلوں میں ایک سال تک نظر بند رہے۔ حضرت کو تحریک ختم نبوت کے ساتھ بے حد شغف تھا، آپ کا شمار تحریک ختم نبوت کے ممتاز راہنما حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کے خصوصی رفقاء کو ہوتا تھا اور آپ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے آخر وقت تک نائب امیر رہے۔
حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ کا روحانی تعلق حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ سے تھا اور آپ کو حضرت رائے پوری کے علاوہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجرؒ مدنی سے بھی خلافت و اجازت حاصل تھی۔
شیخ الجامعہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ نے اپنے نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط تدریسی دور میں زیادہ تر علمِ حدیث ہی کی خدمت کی۔ آپ کا مشکوٰۃ شریف کا سبق بہت مشہور تھا اور اکثر اہل علم آپ کے املاء کرائے ہوئے اسباق سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ حضرت جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے اور بخاری شریف جیسی جلیل القدر کتاب آخر تک آپ کے درس میں شامل رہی۔ آپ سے ہزاروں علماء اور طلبہ نے استفادہ کیا اور فیض حاصل کرنے والوں میں سے جن علماء نے مختلف شعبوں میں نمایاں حیثیت حاصل کی ان میں سے چند سرکردہ حضرات کے نام گرامی درجِ ذیل ہیں۔ مولانا مفتی زین العابدین، فیصل آباد۔ مولانا عبد الرحمان ، جامعہ اشرفیہ لاہور۔ مولانا قاضی عبد الکریم، کلاچی۔ مولانا قاضی عبد اللطیف سینیٹر۔ مولانا فیض محمد، مہتمم قاسم العلوم ملتان۔ مولانا محمد شریف جالندھریؒ، سابق مہتمم خیر المدارس۔ مولانا قاری سعید الرحمان، راولپنڈی۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مدیر بینات کراچی۔ مولانا محمد ضیاء القاسمی، فیصل آباد۔ شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد، فیصل آباد۔ مولانا گلزار احمد مظاہری۔ مولانا سید ابوذر بخاری۔ مولانا محمد زکریا ایم ایس اے، کراچی۔ مولانا مفتی عبد الستار، ملتان۔ مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی۔ حافظ عبد الرشید ارشد، لاہور۔ مولانا عبد الوحید مکی۔ مولانا مجاہد الحسینی۔ مولانا محمد سلیمان طارق وغیرھم۔
حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ کی ذاتی زندگی انتہائی سادگی اور کفایت شعاری سے عبارت تھی۔ جبکہ معاملات میں اس قدر سخت اور بے لچک تھے کہ آپ کے رفقاء بسا اوقات وہی بات کہنا پڑتی جو حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کی طرف سے انہیں پرانے کپڑوں میں کفن دینے کی وصیت پر حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے کہی تھی کہ آپؓ نے بعد والوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مگر مولانا محمد عبد اللہ مرحوم ایسے موقع پر فرماتے تھے کہ میں عزیمت پر عمل کرتا ہوں، تمہارے لیے رخصت ہے تم رخصت پر عمل کرو۔ اب یہ کمال عزیمت ہی کی بات ہے کہ آج کے دور میں
وہ جامعہ رشیدیہ سے اپنی تنخواہِ قلیل وصول کرتے وقت مہینہ میں کی ہوئی چھٹیوں کا حساب کر کے اتنے دنوں کی تنخواہ وضع کروا لیتے تھے۔ ان کی ڈائری پر بسا اوقات یہ تفصیل بھی درج ہوتی کہ آج اتنے گھنٹے پڑھایا، اتنے گھنٹے آرام کیا اور اتنا وقت مہمانوں کے پاس رہا، اور مہینہ کے اختتام پر ان تفصیلات کی روشنی میں ان کی تنخواہ کا ہر ماہ حساب ہوتا تھا۔ درسگاہ میں بھی پڑھائی کے وقت کے علاوہ جو وقت گزارتے اس کا حساب کر کے اتنا بجلی کا بل مدرسہ میں جمع کروا دیتے۔
وہ اتفاقیہ رخصت کے استحقاق کو اپنے لیے نہیں مانتے تھے۔
حضرت کے لیے جامعہ رشیدیہ میں ایک کمرہ الگ مخصوص کیا گیا تھا مگر وہ آخر وقت تک جامعہ کو اس کمرہ کا کرایہ ادا کرتے رہے۔
حضرت مدرسہ کے شیخ الحدیث ہونے کے باوجود مدرسہ کے لیٹرپیڈ اور قلم دوات کو فتویٰ نویسی کے علاوہ کسی کام کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔
وہ مدرسہ کی سالانہ تعطیلات کی تنخواہ بھی وصول نہیں کرتے تھے۔
جامعہ کے سالانہ جلسہ اور دیگر تقریبات میں انہیں مہمانوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہونا پڑتا جس کا اہتمام مدرسہ کی طرف سے ہوتا تھا لیکن بعد میں وہ اس کی قیمت مدرسہ کے حساب میں جمع کرواتے تھے۔
دوسرے مدارس کے سالانہ اجتماعات اور امتحانات وغیرہ کے لیے جاتے تو ان سے سفر کے اخراجات سے زائد رقم وصول نہ کرتے تھے۔ اور جو رقم ان کی طرف سے خدمت میں پیش کی جاتی اس میں سے سفر کے اخراجات وضع کر کے باقی رقم واپس کر دیتے۔
مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ کی پہلی بیوی سے دو لڑکے مولانا عبید اللہ اور مولانا مطیع اللہ اور ایک لڑکی صاحب اولاد ہے۔ دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ دوسری بیوی کی وفات کے بعد فرمایا کہ میں اکیلا ہوں کھانا اپنے لڑکوں کے ہاں کھایا کروں گا، بیوی نہیں ہے اس لیے میرے اور کوئی اخراجات نہیں ہیں۔ یہ کہہ کر مدرسہ سے تنخواہ لینا بند کر دی اور پھر مسلسل آٹھ برس کا عرصہ آخر عمر تک کوئی تنخواہ نہیں لی۔
اس عزیمت و احتیاط کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کوئی بڑے جاگیردار تھے یا ان کا کوئی کارخانہ چلتا تھا بلکہ وہ بے سروسامان قسم کے سفید پوش بزرگ تھے۔ یہ تقویٰ اور دیانت کے اعلیٰ اصولوں اور عظیم اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کا جذبہ تھا جس پر وہ تمام عمر اس قدر سختی کے ساتھ قائم رہے کہ فی الواقع وہ اپنے بعد والوں کے لیے ’’مشکلات‘‘ پیدا کر گئے ہیں۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہؒ معاملات کے ساتھ ساتھ عبادات کے بارے میں بھی اپنے معمولات کے سختی کے ساتھ پابند تھے۔ حتیٰ کہ سفر کے دوران بھی نماز باجماعت کا اہتمام ہوتا۔ ان کا معمول یہ تھا کہ سفر تھوڑا تھوڑا کر کے کرتے۔ بس کے ذریعے جاتے تو اتنے فاصلہ کا ٹکٹ لیتے جہاں اگلی نماز کا وقت ہو جاتا، وہاں اتر کر نماز باجماعت ادا کرتے اور پھر آگے سفر کرتے۔
دو سال قبل ان پر فالج کا حملہ ہوا لیکن علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ علم حدیث کے طلبہ اپنی سعادت سمجھ کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ دوسرے طلبہ کے علاوہ تبلیغی جماعت کے مرکز رائے ونڈ کے مدرسہ سے بھی طلبہ کو علم حدیث کی تعلیم کے لیے اہتمام کے ساتھ ان کی خدمت میں بھیجا جاتا اس لیے وہ تعلیم و تدریس کے سلسلہ میں حتی الوسع کوشش کرتے اور علالت کے باوجود درس و تدریس کا معمول اکثر و بیشتر قائم رہتا۔ کچھ عرصہ قبل کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے زبان بند ہوگئی مگر اس سے قبل جو آخری گفتگو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کی اس میں غیبت سے بچنے، نماز کی پابندی کی تلقین، بچیوں کو دین کی تعلیم دلانے، اور پردہ کی پابندی کی تاکید فرماتے ہوئے دین کی مسلسل تبلیغ کرنے پر زور دیا۔
۲۶ رمضان المبارک کو غروب آفتاب کے وقت خود بخود آنکھیں کھولیں، اردگرد ماحول پر نظر ڈالی، زبان پر اللہ اللہ کا ذکر جاری ہوا، چہرہ خود بخود قبلہ رخ ڈھلک گیا۔ یوں غروب آفتاب کے ساتھ ہی علم و فضل کا یہ آفتاب بھی نصف صدی تک دنیا کے ایک حصہ کو اپنا علم و فضل اور تقویٰ و کردار کے ساتھ روشن کرتا ہوا موت کی وادیوں میں غروب ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نمازِ جنازہ حضرت کے بہنوئی مولانا ولی محمد فاضل دارالعلوم دیوبند نے پڑھائی جس میں شہر کے ہزاروں افراد کے علاوہ ملک بھر کے جید علمائے کرام، خطباء، راہنمایانِ ملک و ملت نے شرکت فرمائی۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ہفت روزہ خدام الدین، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۴ جولائی ۱۹۸۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter