Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

118 - 188
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کی اچانک خبر ملک بھر کے علمی وفکری حلقوں کی طرح میرے لیے بھی بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ میں اس روز ڈیرہ اسماعیل خان میں تھا۔ ایک روز قبل مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کے ہمراہ کلاچی گیا تھا۔ جمعیۃ علماء اسلام کے بزرگ راہ نما مولانا قاضی عبد اللطیف کی وفات کے بعد وہاں نہیں جا سکا تھا۔ ان کے برادر بزرگ حضرت مولانا قاضی عبد الکریم صاحب مدظلہ اور دیگر اہل خاندان سے تعزیت کی اور رات کو ہم ڈیرہ اسماعیل خان آ گئے۔ ڈیرہ میں موبائل فون کی سروس سکیورٹی کے عنوان سے ایک عرصے سے بند ہے۔ اپنے پروگراموں سے فارغ ہو کر دوپہر کے وقت ہم ڈیرہ اسماعیل خان سے روانہ ہوئے تو شہر سے باہر نکلتے ہی موبائل فون کی گھنٹی بجی اور ہمارے گوجرانوالہ کے ساتھی حافظ محمد یحییٰ میر نے اطلاع دی کہ آپ کے اسلام آباد والے دوست ڈاکٹر محمود احمد غازی انتقال کر گئے ہیں۔ دل دھک سے رہ گیا۔ ان سے خبر کا ذریعہ پوچھا تو بتایا کہ ٹیلی وژن کے ایک چینل پر پٹی چل رہی ہے۔ اسلام آباد کے ایک دو دوستوں کو فون کیا تو انھوں نے تصدیق کر دی کہ ڈاکٹر صاحب کا صبح نماز فجر کے وقت انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جنازے کے بارے میں بتایا گیا کہ دو بجے اسلام آباد میں ہے۔ اس وقت ایک بجے دن کا وقت تھا۔ جنازے میں شریک نہ ہو سکنے کا صدمہ بھی ڈاکٹر غازی مرحوم کی اچانک جدائی کے غم کا ساتھی بن گیا۔
ڈاکٹر صاحب موصوف نے ۳ اکتوبر کو ہمارے ہاں گوجرانوالہ تشریف آوری کا پروگرام طے کر رکھا تھا۔ الشریعہ اکادمی میں ’’دینی مدارس میں تدریس قرآن کریم کی اہمیت اور تقاضے‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا پروگرام طے تھا جس کے مہمان خصوصی ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ تھے اور تاریخ انھی کے مشورے سے طے ہوئی تھی۔ ہم ا س سیمینار کی تیاری کر رہے تھے اور ڈاکٹر صاحب کی تشریف آوری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ مزید چھوٹے چھوٹے پروگرام بھی ترتیب دے رہے تھے کہ اچانک انھیں مالک حقیقی کی طرف سے بلاوا آ گیا اور وہ سارے پروگرام چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے خاندان سے تھا۔ انھوں نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں حاصل کی اور دورۂ حدیث دار العلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راول پنڈی میں کیا۔ ان کے حدیث کے استاذ صوبہ خیبر پختون خواہ کے معروف محدث حضرت مولانا عبد الرحمن المینوی رحمہ اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے استاذ شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ تھے۔ وہ اپنے استاذ محترم کی طرز پر مختلف یونیورسٹیوں میں چند روز کے اندر دورۂ تفسیر بھی کراتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے نوٹنگھم (برطانیہ) کے جامعہ الہدیٰ میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ وہ لیسٹر کے ادارۂ اسلامک فاؤنڈیشن میں دس روزہ دورۂ تفسیر قرآن کریم کرانے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے تعجب کا اظہار کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس طرز کے دورۂ تفسیر قرآن کریم کراتے رہتے ہیں۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں پیش رفت کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے، مگر ان کا اصل تعارف ان کی ڈگریوں کے حوالے سے نہیں، بلکہ ان کے علمی مقام اور دینی وعلمی خدمات کے حوالے سے جس نے انھیں دینی وعصری علوم کے ماہرین میں ایک متفق علیہ شخصیت اور معتمد راہ نما کے مقام پر فائز کر دیا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پہلی ملاقات یاد نہیں، مگر بیسیوں ملاقاتوں کے مناظر ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے ابتدائی دور میں ڈاکٹر غازی مرحوم ہماری دعوت پر گوجرانوالہ تشریف لائے۔ یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کیا اور تعلیمی نظام میں بہت سے مفید مشوروں سے نوازا۔ اس موقع پر انھوں نے جامع مسجد نور، مدرسہ نصرۃ العلوم میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم میرے علمی وفکری معاملات میں سب سے بڑے مشیر تھے اور ہمارے درمیان امت مسلمہ کے علمی وفکری مسائل پر تبادلہ خیالات اور مشاورت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تھا۔ لندن میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور مولانا مفتی برکت اللہ کے ساتھ مل کر ہم نے ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ قائم کیا جو گزشتہ دو عشروں سے علمی وفکری محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ فورم کا مقصد ملت اسلامیہ کو درپیش علمی وفکری مسائل کی نشان دہی اور ان کے حل کی تلاش میں کاوشوں کو منظم کرنا ہے۔ اس فورم کی تشکیل اور سرگرمیوں میں ہمیں جن نمایاں علمی شخصیتوں کا تعاون حاصل رہا ہے، ان میں مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر سید سلمان ندوی، مولانا سید سلمان الحسینی اور مولانا محمد عبد اللہ پٹیل کاپودروی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایک بار ہماری دعوت پر برطانیہ کا دورہ بھی کیا اور فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے علاوہ مختلف شہروں میں علمی اور فکری اجتماعات سے خطاب کیا۔
ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے ہم نے مغربی ممالک کے لیے اسلامی تعلیمات کے خط وکتابت کا سلسلہ شروع کرنا چاہا تو ہمیں دعوہ اکیڈمی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا کورس پسند آیا۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب مرحوم دعوہ اکیڈیمی کے سربراہ تھے۔ انھوں نے نہ صرف بھرپور تعاون کیا، بلکہ باقاعدہ معاہدے کی صورت میں اردو اور انگلش نصابات کی کاپیاں فراہم کیں اور سالہا سال تک اس پروگرام کی سرپرستی کرتے رہے۔ یہ کورس جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم کے ذریعے کئی سال تک چلتا رہا ہے اور مختلف مغربی ممالک کے ہزاروں لوگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے اور اب یہ ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے عنوان سے انٹر نیٹ پر موجود ہے اور سیکڑوں افراد اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اللہ کی قدرت کہ جن دنوں اس کورس کے سلسلے میں بات چیت چل رہی تھی، ڈاکٹر صاحب کی جگہ دعوہ اکیڈمی کے نئے ڈائریکٹر جنرل کا تقرر ہو گیا۔ ہمیں بہت پریشانی لاحق ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب سے ہمارے مذاکرت چل رہے ہیں اور نئے آنے والے ڈائریکٹر جنرل کے مزاج سے ہم واقف نہیں ہیں، پتہ نہیں کہ وہ ہماری ضروریات کے مطابق تعاون کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ میری برطانیہ کے سفر سے واپسی ہوئی تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے فون پر رابطہ کیا اور نئے آنے والے ڈائریکٹر جنرل کے حوالے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ اسلام آباد تشریف لائیں۔ میں اسلام آباد گیا اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے مجھے ایک ڈرافٹ دیا اور کہا کہ اس پر دستخط کریں۔ ان دنوں میں ورلڈ اسلامک فورم کا چیئرمین تھا اور میرے وہاں دستخط ہونے تھے ۔ میں نے دستخط کر دیے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ دعوہ اکیڈمی کا منصب چھوڑنے سے پہلے میں نے آپ کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے پر دستخط کر دیے تھے اور مجھے یاد تھا کہ میں نے ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے۔ یہ ہمارا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کرنے کا ایک خوشگوار تجربہ تھا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وزارت مذہبی امور کا منصب سنبھالا تو مجھے بھی تعجب ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس میدان اور ذوق کے آدمی نہیں تھے، مگر رفتہ رفتہ ان کی حکمت عملی سمجھ میں آنے لگی تو میں ان کی ذہانت اور صلاحیتوں کا پہلے سے زیادہ معترف ہوتا گیا اور جب وہ وزارت سے الگ ہوئے تو میں اسلام آباد کے چند علماء کرام کے ساتھ ان سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گیا۔ باتوں باتوں میں، میں نے انھیں مبارک باد پیش کی اور شکریہ ادا کیا تو وہ چونکے اورمیرے ساتھ جانے والے علماء کرام بھی متعجب ہوئے کہ میں شکریہ اور مبارک باد کس حوالے سے پیش کر رہا ہوں! میں نے عرض کیا کہ دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کے لیے جنرل پرویز مشرف کا پروگرام طے پا چکا تھا اور اس پر عمل درآمد کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ڈاکٹر غازی مرحوم نے فائل ورک، پیپر ورک اور بیرونی دوروں کا جال بچھا دیا۔ مختلف مسلم ممالک کے تعلیمی نظاموں کا جائزہ لینے کے لیے وفود جانا شروع ہوئے اور ملک کے اندر مختلف حوالوں سے کمیٹیوں اور مذاکرات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ اتنے میں دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کو اپنی صف بندی اور موقف وپالیسی میں یکسانیت پیدا کرنے کا موقع مل گیا اور وہ متحد ہو کر رائے عامہ کی قوت کے ساتھ سامنے آ گئے جس سے دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کا پروگرام آگے نہ بڑھ سکا۔ میں نے کہا کہ میں ڈاکٹر صاحب کو اس کامیاب حکمت عملی پر مبارک باد دے رہا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کر رہا ہوں۔ یہ سن کر ڈاکٹر غازیؒ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا کہ صرف آپ میری اس حکمت عملی کو سمجھ سکے ہیں، ورنہ اسلام آباد کے علماء کرام تو مجھے ابھی تک برا بھلا ہی کہہ رہے ہیں۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے کچھ عرصہ قبل بڑے دینی مدارس میں تخصصات کے نصابات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنائی اور مجھے اس کا مسؤل بنایا تو میں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب سے مشورہ ضروری سمجھا۔ انھوں نے نہ صرف متعدد مفید مشوروں سے نوازا، بلکہ ایک باقاعدہ رپورٹ دینی مدارس کے تخصصات کے بارے میں تحریر کی جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں شائع ہو چکی ہے، مگر بدقسمتی سے یہ اہم کام جو بتدریج آگے بڑھ رہا تھا، وفاق المدارس کی بیورو کریسی کی داخلی مصلحتوں اور ترجیحات کی نذر ہو کر معطل پڑا ہے۔
آخری ملاقات چند ماہ قبل اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ہوئی جب میں گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے پراجیکٹ کے حوالے سے ان سے مشورے کے لیے گیا۔ ربع صدی قبل شروع کیا جانے والا ہمارا یہ پراجیکٹ مختلف وجوہ کی بنا پر کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ زمین کا ایک بڑا رقبہ اور تین چار بلڈنگیں موجود تھیں۔ ہم دس پندرہ سال کے تعلیمی پروگرام میں اتار چڑھاؤ کے بعد یہ طے کر چکے تھے کہ اب مزید اس کام کو آگے بڑھانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے جن حضرات سے مشاورت ہوئی، ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سرفہرست تھے۔ ہم ان کے پاس یہ تجویز لے کر گئے تھے کہ اگر یہ جگہ اور بلڈنگیں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے کسی منصوبے میں کام آ سکتی ہوں تو وہ اس کے لیے ہماری مدد کریں۔ انھوں نے اس سے اتفاق کیا مگر کہا کہ پہلے کراچی کے کسی بڑے دینی ادارے سے بات کر کے دیکھ لیں، وہ زیادہ بہتر رہیں گے۔ اگر وہاں بات نہ بن سکی تو پھر میں آپ حضرات کی تجویز پر پیش رفت کر سکتا ہوں۔ نام بھی انھوں نے انھوں نے تجویز کیا کہ اگر دار العلوم کراچی تیار ہو تو زیادہ بہتر ہوگا، مگر وہ شاید ایسا نہ کریں، اس لیے جامعۃ الرشید سے بات کر لیں۔ وہ سنبھال بھی لیں گے اور بہتر انداز میں کوئی تعلیمی پروگرام بھی منظم کر لیں گے۔ یہ بات ایک آپشن کے طور پر ہمارے ذہن میں بھی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی تائید سے پختہ ہو گئی۔ ہم نے جامعۃ الرشید سے بات کی اور انھوں نے جگہ اور بلڈنگیں سنبھال کر ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے تعلیمی پروگرام کا آغاز گزشتہ سال شوال سے کر دیا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام بھی ڈاکٹر صاحب مرحوم کے صدقات جاریہ میں سے ہے اور اس تعلیمی پروگرام کے اجر و ثواب میں وہ مسلسل شریک رہیں گے۔
اسی دوران ڈاکٹر صاحب مرحوم سے میری ایک ملاقات دار العلوم اسلامیہ کامران بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں دینی مدارس کے اساتذہ کے تربیتی پروگرام میں ہوئی جس میں مختلف امور پر باہمی تبادلہ خیالات ہوا۔ میرا بیان ظہر سے قبل ہو چکا تھا، مگر میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات اور ان کا خطاب سننے کے لیے مغرب تک رکا۔ اب یہ میرے ذہن میں نہیں ہے کہ ان دونوں ملاقاتوں میں سے پہلے کون سی ہوئی اور دوسری کون سی، مگر یہ ہماری آخری دو ملاقاتیں ہیں جن کی یاد ہمیشہ ذہن میں تازہ رہے گی۔
ایک دفعہ خبر ملی کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں ڈاکہ پڑ گیا ہے اور رات کے وقت ڈاکوؤں نے غازی صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر غزالی پر تشدد بھی کیا ہے۔ مجھے پریشانی ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر ڈاکو کیا لینے آئے تھے۔ مجھے تو معلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں کیا ہو گا۔ جب میں ڈاکٹر صاحب سے ملا تو ان سے معاملہ دریافت کیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب ! ان کو کس طرح حوصلہ ملا کہ آپ کے گھر میں کوئی چیز مل سکتی ہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ اصل میں ان ڈاکوؤں کو مغالطہ لگ گیا ۔ وہ اس طرح کہ جب بھی مجھے کسی دوسرے ملک میں کسی پروگرام میں جانا ہوتا ہے تو وہاں سے کوئی نہ کوئی تحفہ یا اعزاز ملتا ہے اور وہ جن ڈبوں میں بند ہوتے ہیں، وہ زیورات کے ڈبوں کی طرح سجے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ میرے گھر میں ڈھیروں پڑے ہوئے ہیں اور تین چار الماریاں بھری پڑی ہیں۔ کسی آنے جانے والے کو مغالطہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر اتنا زیور ہے۔ وہ مغالطہ ڈاکووں کو یہاں لے آیا اور بے چارے غزالی پر تشدد کر کے چلے گئے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کو عام طور پر یونیورسٹی کی دنیا کا آدمی سمجھا جاتا رہا ہے، حالانکہ وہ اصلاً دینی مدارس کے ماحول کے آدمی تھے اور جدید تعلیم کی دنیا میں روایتی دینی حلقوں کی بھرپور اور کامیاب نمائندگی کر رہے تھے۔ جدید ماحول میں آج کے اسلوب اور اصطلاحات میں دین اسلام اور امت مسلمہ کے روایتی اور اجماعی موقف کے جس کامیابی اور اعتماد کے ساتھ وہ نمائندگی کرتے تھے، مجھے اس معاملے میں اس حوالے سے بلا مبالغہ ان کا کوئی ثانی دکھائی نہیں دے رہا۔ علمی محاذ پر بہت سی شخصیات ان پر تفوق رکھتی ہیں، لیکن علم کے صحیح اور بروقت استعمال اور علم وفکر میں توازن کے حوالے سے وہ اپنے معاصرین میں سب سے نمایاں تھے۔ ڈاکٹر صاحب دینی اور عصری علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ عربی اور انگلش سمیت نصف درجن کے لگ بھگ زبانوں میں قادر الکلام تھے اور تحریر وتقریر پر ان کی مکمل دسترس تھی۔ بے پناہ مطالعہ اور تجزیہ وتنقیح کی اعلیٰ صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کی گہرائی تک اترتے اور اس کا قابل عمل حل نکالتے تھے۔ نامساعد حالات میں بھی اعتماد اور خوش اسلوبی کے ساتھ کام کرنے اور اپنا کام کر گزرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں اسلام کی نمائندگی اور جمہور اہل علم کے موقف کی ترجمانی کے لیے پوری دنیاے اسلام میں گنتی کے جن چند حضرات کا نام لیا جا سکتا تھا، ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر محمود احمد غازی کا بھی تھا۔ کسی سطح کی کانفرنس ہو اور کوئی بھی موضوع ہو، وہ پورے اعتماد، حوصلے اور جرات کے ساتھ اسلام کی ترجمانی کرتے تھے اور مطالعہ اور گفتگو کے عصری اسلوب پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ فکر ودانش کی کوئی بھی سطح اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی تھی۔
ڈاکٹر غازی مرحوم کے علمی تبحر، مطالعہ کی وسعت اور دینی وعصری تقاضوں کے مکمل ادراک کے ساتھ ساتھ مجھے ان کی جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ موقع ومحل کے مطابق محفل کی ذہنی سطح کا لحاظ کرتے ہوئے موثر اور ثمر آور گفتگو کی صلاحیت تھی اور اس کے علاوہ ان کی سادگی، انکساری اور درویش مزاجی تھی جو ان کے حلقہ احباب میں ان کی مقبولیت کا باعث تھی۔ میرا احساس ہے کہ وہ اپنی علمی سطح اور منصبی مقام کو سامنے رکھتے ہوئے پروٹوکول کے تکلف میں پڑے رہتے تو شاید اتنے زیادہ لوگ ان سے علمی استفادہ نہ کر پاتے۔ میرے خیال میں پروٹوکول کا تکلف علمی دنیا میں استفادہ اور افادہ دونوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور میں اس سلسلے میں امام ابویوسفؒ کے اس قول کا اکثر حوالہ دیا کرتا ہوں کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ ایک غریب اور معمولی خاندان کا فرد ہوتے ہوئے علم وفضل کے اس قدر بلند مقام تک کیسے پہنچے ہیں تو فرمایا کہ:
ما استنکرت من الاستفادۃ وما بخلت بالافادۃ۔
میں اس کا اپنی زبان میں ترجمہ یوں کیا کرتا ہوں کہ :
’’علم کے حصول اور فروغ میں میرا کبھی کوئی پروٹوکول نہیں رہا۔‘‘
میں نے ڈاکٹر غازی مرحوم کو حضرت امام ابو یوسفؒ کے اس ارشاد کا عملی مصداق پایا ہے اور کم وبیش دو عشروں تک اس کامشاہدہ کرتا رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے ساتھ میرا تعلق مخلص بھائیوں اور بے تکلف دوستوں والا تھا۔ انھوں نے ہمیشہ مجھے بڑے بھائی کا احترام دیا اور میرے لیے ہمیشہ وہ سب سے زیادہ معتمد اور مخلص مشیر ثابت ہوئے۔ وہ اپنی زندگی پوری وضع داری کے ساتھ گزار کر چل دیے ہیں اور بارگاہ ایزدی میں ان کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ رات کو ان کو دل کا دورہ پڑا، وہ فجر تک ہسپتال میں رہے، فجر کے وقت ہوش میں آئے تو نماز کا وقت پوچھا اور یہ معلوم کر کے کہ فجر کا وقت ہو گیا ہے، نماز فجر ادا کی اور اس کے چند لمحوں بعد جان جاں آفرین کے سپرد کر دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ رسم ومحاورہ کی بات نہیں، بلکہ امر واقعہ ہے کہ ہم اپنے دور کی ایک بڑی علمی شخصیت اور معتمد فکری راہ نما سے محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں، آخرت کی منزلیں آسان فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
جنوری ۲۰۱۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter