Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

131 - 188
حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کے اپنے معاصرین کے نام خطوط کا ایک مجموعہ ان دنوں میرے زیر مطالعہ ہے جو ان کے پوتے مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ آف فیصل آباد نے مرتب کیا ہے۔ انہوں نے اس کا غیر مطبوعہ مسودہ مجھے مطالعہ کے لیے دیا ہے اور وہ اسے شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ میں عید الفطر کی تعطیلات کے دوران اس مسودہ کے ذریعے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی گزشتہ ڈیڑھ سو برس کی سیاسی و تحریکی تاریخ کے مختلف گوشوں کی سیر کر رہا ہوں، ایک ایسی سیر جس میں تفریح کم اور عبرت زیادہ ہے۔
مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ اور برصغیر کی تحریک آزادی کی جدوجہد میں ایک بڑا نام ہے جبکہ اپنے خاندانی پس منظر میں اس نام کی بڑائی اور زیادہ نمایاں نظر آنے لگتی ہے۔ مولانا لدھیانویؒ کا تعلق علمائے لدھیانہ کے اس خاندان سے ہے جسے تاریخ میں اپنے امتیازات کا ادراک و احساس بھی ہے اور اس پر بجا طور پر فخر بھی ہے جس کا اظہار مختلف حوالوں سے وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی سے قبل برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف جہاد کا فتویٰ سب سے پہلے اسی خاندان کے بزرگ مولانا عبد القادر لدھیانویؒ نے دیا تھا۔ اور صرف فتویٰ ہی نہیں دیا بلکہ اپنے بیٹوں اور رفقاء سمیت اس جنگ میں عملاً حصہ بھی لیا تھا۔یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ میں ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جب اپنی خود ساختہ نبوت کے لیے پر پرزے نکالنے شروع کیے تو اس کے کفر کا فتویٰ بھی سب سے پہلے اسی خاندان کے بزرگ مولانا محمد لدھیانویؒ نے صادر کیا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب برصغیر کے بعض اکابر علمائے کرام کو مرزا غلام احمد قادیانی پر کفر کا فتویٰ لگانے میں اپنی تحقیق کی بنیاد میں ابھی تردد تھا اور لدھیانوی علماء سے ان کے اس سلسلے میں مباحثے بھی ہوئے تھے۔پھر یہ خاندان اس بات کو بھی اپنے تاریخی امتیاز اور اعزاز کے طور پر بیان کرتا ہے کہ برصغیر کی آزادی کی جدوجہد میں غیر مسلم ہم وطنوں، بالخصوص ہندوؤں کے ساتھ اشتراک عمل پر بہت سے دینی و علمی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے تھے اور غیر مسلموں کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک چلانے کو عام طور پر شرعی حوالوں سے درست نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس دور میں کانگریس میں مسلمانوں کی شمولیت و شرکت کے جواز کا فتویٰ بھی اسی خاندان نے سب سے پہلے دیا تھا جس کی پاسداری اس خاندان کے علماء نے قیام پاکستان تک پورے حوصلے کے ساتھ کی۔
مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا شوکت علیؒ کی قیادت میں جب تحریک خلافت کا غلغلہ بلند ہوا تو یہ برصغیر کی پہلی سیاسی تحریک تھی جو آئندہ چل کر نصف درجن کے لگ بھگ سیاسی تحریکوں کی نرسری ثابت ہوئی۔ مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ اس کے اہم رہنماؤں میں سے تھے اور پنجاب خلافت کمیٹی کے سربراہ تھے۔ جب تحریک خلافت کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد پنجاب میں تحریک خلافت کے رہنماؤں نے ’’مجلس احرار اسلام‘‘ کے نام سے نئی مورچہ بندی کی تو مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ اس کے پہلے سربراہ چنے گئے اور انہوں نے سالہا سال تک اس حیثیت سے آل انڈیا مجلس احرار اسلام کی قیادت کی۔
تحریکی و سیاسی تگ و تاز کے دوران اپنے معاصرین کے ساتھ ان کی ملاقاتیں بھی رہیں او رخط و کتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ ان میں علمائے کرام بھی ہیں، سیاستدان بھی ہیں، دانشور و مفکرین بھی ہیں اور سماجی رہنما بھی ہیں۔ ان معاصرین میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ، مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، مولانا شبیر احمدؒ عثمانی، علامہ محمد اقبالؒ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، پنڈت جواہر لال نہرو، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، اور لیاقت علی خانؒ جیسی اہم شخصیات شامل ہیں۔ ان اکابر کے ساتھ مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کی خط و کتابت کو دو طرفہ بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے اور ان کے جوابی خطوط بھی اس میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ خطوط جہاں مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کے فکر و نظر کے مختلف زاویوں، جہد و عمل کے اہداف و مقاصد، حکمت و تدبر کے متنوع پہلوؤں، اور حوصلے و استقامت کی بلندیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، وہاں برصغیر کی سیاسی تاریخ کے بہت سے عقدوں کی گرہ کشائی بھی کرتے ہیں۔ جبکہ بعض مواقع پر نئی گرہیں اور عقدے بھی ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں جو کسی بھی غیر جانبدار مؤرخ کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں ہیں۔
مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کا شمار تحریک پاکستان کے سرکردہ مخالفین میں ہوتا ہے، حتیٰ کہ تقسیم ہند کے موقع پر وہ مشرقی پنجاب کی ہنگامہ خیز صورتحال کے باعث وقتی طور پر پاکستان آئے اور انہیں حکومت پاکستان کے ذمہ دار حضرات کی طرف سے یہاں قیام کی پیشکش بھی ہوئی لیکن انہوں نے اس پر معذرت کرتے ہوئے صرف یہ خواہش ظاہر کی کہ انہیں ہوائی جہاز کے ذریعے دہلی بھجوا دیا جائے جو پوری کر دی گئی۔ اس کے بعد وہ مشرقی پنجاب کے لٹے پٹے مسلمانوں کی بحالی اور دلجوئی میں مصروف ہوگئے۔ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی بتدریج بحالی اور ان کی مساجد و مزارات کی واگزاری کی جانگسل محنت کے علاوہ ان کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی شمار ہوتا ہے کہ پاکستان آنے والے مہاجرین کی جو خواتین اور لڑکیاں سکھوں اور دیگر غیر مسلموں نے زبردستی روک لی تھیں، انہیں تلاش کر کے ان کے خاندانوں تک پہنچانے کی مہم شروع کی۔ اس مہم میں انہوں نے پاکستان میں ممتاز مسلم لیگی خاتون رہنما صاحبزادی محمودہ بیگم کے ساتھ مل کر ایک نیٹ ورک قائم کیا۔ وہ مشرقی پنجاب میں ایسی لڑکیوں کو تلاش کر کے صاحبزادی محمودہ بیگم کے پاس پہنچاتے تھے جبکہ محمودہ بیگم مرحومہ ان کے خاندانوں کو تلاش کر کے انہیں ان کے سپرد کردیتی تھیں یا بے سہارا ہونے کی صورت میں ان کی کفالت کا انتظام کرتی تھیں۔
مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ تحریک پاکستان کے ان مخالفین میں سے تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اپنے موقف کا کھلم کھلا اظہار کرتے رہے۔ ان کے موقف اور رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے جو ہر صاحب نظر کا حق ہے، لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کا موقف خود ان کی زبان سے پڑھ لیا جائے جو زیر نظر مجموعے میں 23 مارچ 1947ء کو دارالعلوم دیوبند میں ان کے ایک خطاب کے حوالے سے یوں مذکور ہے:
’’انگریز ہندوستان سے جا رہا ہے مگر اس طور پر کہ ہندوستان کے ٹکڑے اور مسلمان قوم کو تقسیم کر کے۔ تمہیں معلوم ہے کیوں؟ میں تم کو بتاتا ہوں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھو ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں مسلمان قوم کا سب سے زیادہ حصہ ہے، سب سے زیادہ مشکلات مسلمان قوم نے اٹھائیں، سب سے زیادہ مار مسلمان قوم نے کھائی، سب سے زیادہ نقصان مسلمان قوم کا ہوا۔ وہ اس لیے کہ انگریز نے اقتدار مسلمان قوم سے چھینا تھا۔ قدرتی طور پر شدید ردعمل مسلمان قوم ہی کی طرف سے ہوا۔ ہندو تو ایک ہزار سال سے مسلمانوں کا محکوم تھا، اگر وہ مسلمانوں کی حکمرانی سے نکل کر انگریز کی حکمرانی میں آگیا تھا تو اس پر اس کا کوئی اثر نہیں تھا۔ محکوموں پر حاکم بدل جانے سے کوئی اثر نہیں پڑتا، البتہ حاکم قومیں غلامی کی ذلت برداشت نہیں کر سکتیں۔ مسلمان ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ انگریز کو ڈر ہے کہ مسلمان بحیثیت قوم کہیں پھر سے مجتمع ہو کر قوت نہ بن جائیں اس لیے مسلمانوں کو تین جگہ پر تقسیم کیا جا رہا ہے۔
دوسری بات یہ ذہن میں رہے کہ پاکستان انگریز کے چنگل سے نکل کر امریکہ کے چنگل میں چلا جائے گا، اس کے فیصلے امریکہ میں ہوا کریں گے۔ پاکستان انگریز اور امریکہ کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی سرحدیں افغانستان کے ذریعے روس سے ملتی ہیں۔ روس میں سوشلسٹوں کی حکمرانی ہے۔ نیز روس بذات خود ایک عالمی طاقت کی شکل میں ابھر رہا ہے۔ کانگریس میں جواہر لال نہرو سمیت کئی لیڈر سوشلسٹ نظریات رکھتے ہیں۔ امریکہ کو خطرہ ہے کہ اگر ہندوستان کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا تو ہندوستان کی سوشلسٹ حکومت روس کے ساتھ مل کر ایک زبردست بلاک بنا لے گی جس کی وجہ سے ایشیا میں امریکہ کا ناطقہ بند ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ ہندوستان اور روس کے درمیان ایک ایسی ریاست قائم کر دی جائے جس کی وجہ سے یہ دونوں ملک آپس میں مل کر کوئی مضبوط محاذ نہ بنا سکیں۔ پاکستان کی ضرورت صرف اتنی سی ہے۔ جب تک پاکستان امریکہ کی یہ ضرورت پوری کرتا رہے گا قائم رہے گا۔ پاکستان کی بقاء کا مدار مادی طور پر صرف امریکہ کی خوشنودی پر ہے۔
میرے خاندان نے تقریباً ڈیڑھ سو سال تک انگریز سے آزادی کی جنگ لڑی ہے مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انگریز ہندوستان کو تقسیم کر کے جا رہا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو میں صرف اتنا کہوں گا کہ امریکہ کی مخالفت میں اتنا نہ جائیں کہ پھر واپسی ممکن نہ ہو سکے۔ امریکہ کی مخالفت کرو گے تو وہ بھی اپنا مطلب نکل جانے کے بعد پاکستان کے ٹکڑے کر دے گا۔ یاد رکھو ! پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ ہے، اگر اس پناہ گاہ کو کچھ ہوا تو برصغیر کے مسلمانوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔‘‘
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۳ ستمبر ۲۰۱۲ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter