Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

84 - 188
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ
مولانا عبد الرؤف فاروقی سمن آباد لاہور کی مسجد خضراء کے خطیب ہیں اور لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے سادھوکی سے ایک کلومیٹر آگے جی ٹی روڈ پر جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ کے نام سے ایک دینی تعلیمی ادارے کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہیں۔ جامعہ اسلامیہ میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک ہسپتال بھی علاقے کے لوگوں کی خدمت کر رہا ہے اور اب جامعہ میں تحریک آزادی کے نامور رہنما مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے نام سے منسوب ایک ہال تعمیر کیا گیا ہے جس کی 2 جنوری کو افتتاحی تقریب تھی۔ اس تقریب میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے رہنما سینیٹر مولانا سمیع الحق، مولانا قاضی عبد اللطیف، مولانا میاں محمد اجمل قادری، اور پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی کے علاوہ بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی شریک ہوئے اور خطاب کیا۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے بارے میں دور حاضر کے تقاضوں پر ڈاکٹر صاحب موصوف نے مفصل اور خوبصورت گفتگو کی جو الگ طور پر مرتب ہو کر شائع ہو سکے تو بے شمار لوگوں کو اس سے فائدہ ہوگا۔ مجھے اس محفل میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی خدمات اور جدوجہد کے حوالے سے گفتگو کے لیے کہا گیا، میں نے اس پر جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کا نام ہماری گزشتہ صدی کی تاریخ میں دو حوالوں سے بہت نمایاں ہے۔ ایک اس حوالے سے کہ برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف 1857ء کے معرکۂ آزادی میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا اور قربانیاں دیں۔ دوسرا اس حوالہ سے کہ جنوبی ایشیا پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد مسیحی مشنریوں نے اقتدار کے زیر سایہ اس خطے کو مسیحی ریاست بنانے کے لیے جو یلغار کی اور اسلام کے خلاف اعتراضات اور شکوک و شبہات کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر مسلمانوں کو مسیحی بنانے کی جو مہم چلائی اس کا مقابلہ کرنے اور اس کا راستہ روکنے والے چند سرکردہ علمائے کرام میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کا نام سرفہرست ہے۔
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کا تعلق عثمانی خاندان سے تھا، ان کے جد امجد قاضی عبد الرحمنؒ گازرونی سلطان محمود غزنویؒ کے لشکر میں ’’قاضیٔ عسکر‘‘ تھے اور انہی کے ساتھ ہندوستان آئے تھے۔ انہوں نے سومنات کے معرکے میں شرکت کی اور اس کے بعد پانی پت میں آباد ہوگئے جہاں قلعہ کے قریب ان کی قبر بتائی جاتی ہے۔ اس خاندان کے ایک اور بزرگ حکیم عبد الکریمؒ نے جو ’’حکیم بینا‘‘ کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے، اکبر بادشاہ کے دور میں شہرت پائی۔ بتایا جاتا ہے کہ اکبر بادشاہ ایک بار شکار کھیلتے ہوئے زخمی ہوگیا تو حکیم عبد الکریم نے اس کا علاج کیا جس سے وہ جلد شفایاب ہوگیا۔ اس پر انہیں ’’شیخ الزمان‘‘ کا خطاب دیا گیا اور ان کے بھائی حکیم محمد احسنؒ کو جہانگیر بادشاہ نے کیرانہ کی جاگیر عطا کی۔ شہنشاہ جہانگیر کے دور میں حکیم محمد احسن دکن کے اور شاہ جہان کے دور میں بہار کے گورنر بھی رہے۔ ان کی جاگیر کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’تزک جہانگیری‘‘ میں ان کے ایک باغ کے درختوں کی تعداد نو لاکھ بتائی گئی ہے۔
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی ولادت 1233 ہجری میں ہوئی اور انہوں نے وہی روایتی دینی تعلیم حاصل کی جو اس دور کے علمائے کرام حاصل کیا کرتے تھے۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے جلو میں ہزاروں مسیحی پادریوں نے مشنری سرگرمیوں کے لیے ہندوستان کا رخ کیا تو ان کا مقابلہ کرنے والوں میں مولانا رحمت اللہؒ بھی شامل تھے۔ اس دور کے سب سے بڑے پادری ڈاکٹر فنڈر تھے جو گفتگو اور مناظرے کے فن میں طاق تھے اور پورے ہندوستان میں ان کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ان کے بارے میں عام طور پر یہ مشہور تھا کہ کوئی مسلمان عالم دین ان کے مقابلے میں آنے کی ہمت نہیں کرتا۔ مگر مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے نہ صرف ان کا چیلنج قبول کیا بلکہ مناظرے میں شکست فاش دے کر انہیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہ مناظرہ 10 اپریل 1854ء کو اکبر آباد، آگرہ میں ہوا جس میں علاقے کے معززین اور عمائدین شریک ہوئے۔ مناظرے کے لیے تین دن طے تھے مگر دو دن کی گفتگو میں ڈاکٹر فنڈر اس قدر زچ اور بے بس ہوئے کہ تیسرے روز مناظرے کے لیے نہیں آئے اور اس کے بعد ہندوستان چھوڑ کر ترکی چلے گئے۔
1857ء میں جب جنوبی ایشیا کے مختلف حصوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑکے اور درجنوں مقامات پر عوام نے علم بغاوت بلند کیا تو کیرانہ بھی اس میں شامل ہوگیا۔ چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کے خلاف کیرانہ کے عوام کی بغاوت کا اعلان ان الفاظ میں ہوا کہ ’’ملک خدا کا اور حکم مولوی رحمت اللہ کا‘‘۔ ان کے بڑے ساتھی چودھری عظیم الدین مرحوم بتائے جاتے ہیں جنہوں نے انگریزی فوج سے لڑنے والے لشکر کی کمان کی مگر ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کیرانہ میں بھی آزادی کی یہ مسلح جدوجہد ناکام ہوئی۔ اس کے بعد مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی گرفتاری کے لیے چھاپے پڑتے رہے مگر وہ کسی طرح بچتے بچاتے ہجرت کر کے مکہ مکرمہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی غیر حاضری میں ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا اور 3 جنوری 1862ء کو ڈپٹی کمشنر کرنال کے حکم سے مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے خاندان کی جاگیر اور جائیداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔
مکہ مکرمہ پہنچے تو وہاں کے علماء سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جوہر شناس علماء نے اس مردِ درویش کے علمی مقام کو پہچان لیا اور بہت سے لوگوں نے ان سے استفادہ کیا۔ اس دور میں حجاز مقدس ترکی کی خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا اور سلطان عبد المجید خلیفہ تھے۔ ہندوستان میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے ہاتھوں شکست کھانے والے پادری ڈاکٹر فنڈر نے ترکی کا رخ کیا تھا اور استنبول کو، جو اس دور میں قسطنطنیہ کہلاتا تھا، اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھا۔ ڈاکٹر فنڈر نے وہاں یہ تاثر دیا کہ ہندوستان کے علماء اسلام کے بارے میں ان کے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکے اس لیے وہ عالم اسلام کے مرکز قسطنطنیہ میں آئے ہیں تاکہ یہاں کے علماء میں سے اگر کسی میں ہمت ہو تو ان کے اعتراضات کا سامنا کرے۔ سلطان عبد المجید مرحوم نے حالات کی تحقیق کے لیے حرمین شریفین میں علمائے کرام کو لکھا کہ حج کے موقع پر ہندوستان سے لوگ آئے ہوں تو ان سے صورتحال معلوم کر کے انہیں صحیح رپورٹ دی جائے۔ جب سلطان کا پیغام مکہ مکرمہ پہنچا تو مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ میں بسیرا کر چکے تھے۔ علمائے کرام نے سلطان کو لکھا کہ جس ہندوستانی عالم دین سے ڈاکٹر فنڈر کا مقابلہ ہوا تھا وہ مکہ مکرمہ میں موجود ہیں۔ چنانچہ سلطان عبد المجید مرحوم نے مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کو قسطنطنیہ بلا لیا اور ڈاکٹر فنڈر کو دعوت دی کہ وہ مولانا سے جس موضوع پر چاہے مناظرہ کرلیں۔ ڈاکٹر فنڈر کو جب معلوم ہوا کہ ان سے مناظرے کے لیے وہی آگرہ والے مولوی رحمت اللہ آگئے ہیں تو انہوں نے مناظرہ کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے بعد ترکی سے بھی راہ فرار اختیار کرلی۔
خلافت عثانیہ کے خلیفہ سلطان عبد المجید مرحوم بہت متاثر ہوئے اور مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ سے فرمائش کی کہ وہ اسلام اور مسیحیت کے حوالے سے متعلقہ مسائل پر مبسوط کتاب لکھیں جو سرکاری خرچے پر چھپوا کر دنیا میں تقسیم کی جائے گی۔ چنانچہ مولانا نے ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر سلطان ترکی نے اسے تقسیم کرایا۔ یہ معرکۃ الاراء کتاب عربی میں ہے اور جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے اردو میں اس کا ترجمہ کر کے ایک وقیع مقدمہ بھی اس پر تحریر کیا ہے۔
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کو سلطان عبد المجید مرحوم نے قسطنطنیہ میں قیام کی پیشکش کی جس پر انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر خدا کے گھر میں آگیا ہوں، اب یہ گھر چھوڑ کر کہیں اور نہیں جا سکتا۔ مکہ مکرمہ میں انہوں نے ایک دینی درسگاہ قائم کرنے کا ارادہ کیا جس کے لیے کلکتہ کی ایک فیاض خاتون صولت النساء بیگمؒ نے زمین خرید کر عمارت بنوا دی۔ یہ مدرسہ آج بھی مکہ مکرمہ کے محلہ حارۃ الباب میں ’’مدرسہ صولتیہ‘‘ کے نام سے دینی و تعلیمی خدمات میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے صنعت و حرفت اور دستکاری کا ایک اسکول قائم کیا جس میں طلبہ کو مختلف ہنر سکھائے جاتے تھے۔ ترکی کے سلطان نے مدرسہ صولتیہ کے اخراجات سرکاری طور پر برداشت کرنے کی پیشکش کی تو انہوں نے اس سے معذرت کر دی اور کہا کہ جو مختلف مسلمان مل جل کر اس مدرسے کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں، میں ان کو اس سعادت اور ثواب سے محروم نہیں کرنا چاہتا۔
مولانا کیرانویؒ کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ جس زمانے میں وہ مکہ مکرمہ پہنچے، اس دور میں مکہ مکرمہ میں ڈاک کی تقسیم کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ لوگ اپنے خطوط حرم کے دروازے پر رکھ آتے تھے اور وہیں سے لوگ چھانٹ کر اپنے اپنے خط لے جاتے تھے۔ مولانا رحمت اللہؒ نے مکہ مکرمہ کے حکام اور عوام کو اس ضرورت کی طرف توجہ دلائی اور باقاعدہ ڈاک خانے کے قیام کی تحریک دی۔ یہ نظام ان کی زندگی میں تو نہ بن سکا لیکن ان کے جانشین مولانا محمد سعید مرحوم کے دور میں مکہ مکرمہ میں ڈاک خانے کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا۔
اب جامعہ اسلامیہ کامونکی میں اس مردِ درویش کے نام سے منسوب ہال تعمیر ہوا ہے تو تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس پر مجھے جو خوشی ہوئی ہے میرے لیے اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ میں ایک عرصے سے اس سوچ بلکہ کرب میں مبتلا ہوں کہ مسیحی مشنریاں اور ان کی تبلیغی سرگرمیاں آج بھی پاکستان میں اسی طرح وسعت پذیر ہیں جیسے برطانوی استعمار کے تسلط کے بعد انہوں نے اس خطے پر یلغار کی تھی۔ جس ضلع میں جامعہ اسلامیہ کام کر رہا ہے ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اس ضلع گوجرانوالہ میں مسیحی کمیونٹی کی آبادی اڑھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اس میں پونے چار سو چرچ، سوا چار سو سے زیادہ رفاہی تنظیمیں، اور بتیس کے لگ بھگ مشنری ادارے کام کر رہے ہیں۔ یہی صورتحال دیگر بہت سے اضلاع کی بھی ہے۔ ملک میں مسیحی مشنریوں اور این جی اوز کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ہماری ثقافتی و تہذیبی اقدار کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو دین سے برگشتہ کرنے کے لیے مختلف حوالوں سے کام جاری ہے۔ مگر اس صورتحال میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کا کردار اور مشن کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر مولانا عبد الرؤف فاروقی نے ان کے نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے تو میں اس پر بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مبارک باد دیتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے اس عزم میں آگے بڑھنے کی توفیق دے اور مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ سے منسوب اس ہال کو اس عظیم بزرگ کے مشن اور جدوجہد کا مرکز بنائے، آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۷ جنوری ۲۰۰۵ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter