Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

121 - 188
امیر عبد القادر الجزائریؒ
(جان کائزر کی کتاب ’’امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان‘‘ کے دیباچہ کے طور پر لکھا گیا۔)
انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران مسلم ممالک پر یورپ کے مختلف ممالک کی استعماری یلغار کے خلاف ان مسلم ممالک میں جن لوگوں نے مزاحمت کا پرچم بلند کیا اور ایک عرصہ تک جہاد آزادی کے عنوان سے داد شجاعت دیتے رہے، ان میں الجزائر کے امیر عبد القادر الجزائریؒ کا نام صف اول کے مجاہدین آزادی میں شمار ہوتا ہے جن کی جرات واستقلال، عزیمت واستقامت اور حوصلہ وتدبر کو ان کے دشمنوں نے بھی سراہا اور ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔
امیر عبد القادر مئی ۱۸۰۷ء میں الجزائر میں، قیطنہ نامی بستی میں ایک عالم دین اور روحانی راہنما الشیخ محی الدینؒ کے ہاں پیدا ہوئے اور اپنے والد محترم سے اور ان کے زیر سایہ دیگر مختلف علماء کرام سے ضروری دینی وعصری تعلیم حاصل کی اور ان کے ساتھ ۱۸۲۵ء میں حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب مغرب کے استعماری ممالک ’’انقلاب فرانس‘‘ کی کوکھ سے جنم لینے والی جدید مغربی تہذیب وثقافت کی برتری کے نشے سے سرشار تھے اور سائنسی ترقی سے حاصل ہونے والی عسکری قوت اور ٹیکنالوجی کی صلاحیت نے انھیں پوری دنیا پر حکمرانی کا شوق دلا دیا تھا۔ عالم اسلام کی دو بڑی قوتیں خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں، چنانچہ برطانیہ، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، پرتگال اور دوسرے ممالک نے ان دونوں قوتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے مختلف اطراف میں یلغار کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ افریقہ اور ایشیا کے ایک بڑے حصے کو نو آبادیات میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ وہ سائنسی ترقی اور دنیا میں ہونے والی تہذیبی ومعاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کا بروقت ادراک نہ کر سکیں اور ان کی یہ غفلت استعماری یلغار کے سامنے عالم اسلام کے ایک بڑے علاقے کے سرنڈر ہونے کے اسباب میں ایک اہم سبب ثابت ہوئی۔
بہرحال جب بہت سے مسلم ممالک نے مختلف یورپی ممالک کی نوآبادیاتی غلامی کا طوق گردنوں میں پہنا تو ہر جگہ حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں نے حالات کے اس جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور بہت دیر تک بغاوت اور سرکشی کا محاذ گرم رکھا۔ الجزائر پر فرانس کے تسلط کا آغاز انیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آخر میں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب جنوبی ایشیا میں برطانوی تسلط ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہو چکا تھا اور امام ولی اللہ دہلویؒ کے مکتب فکر بلکہ خانوادے سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کا ایک گروہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں پشاور کے علاقے میں جہادی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔ ان کا وقتی سامنا اگرچہ سکھوں سے تھا، لیکن اپنے عزائم اور اہداف کے حوالے سے وہ برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف جہاد کے لیے بیس کیمپ حاصل کرنے میں مصروف تھے۔
اس قافلہ حریت نے ۱۸۳۰ء میں پشاور کے صوبہ پر قبضہ اور کم وبیش سات ماہ حکومت کرنے کے بعد ۶؍ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کیا تھا۔
الجزائر میں جب ۱۸۳۰ء میں فرانس نے تسلط قائم کرنے کی کوشش کی تو علماء کرام اور مجاہدین کی ایک جماعت نے امیر عبد القادرؒ کے والد محترم الشیخ محی الدینؒ کی قیادت میں تحریک مزاحمت کا آغاز کیا، مگر دو سال کے بعد ۱۸۳۲ء میں یہ دیکھتے ہوئے کہ اس مزاحمت کا سلسلہ بہت دیر تک قائم رہ سکتا ہے، تحریک مزاحمت کی مستقل منصوبہ بندی کی گئی اور الشیخ محی الدین کے جواں سال اور جواں ہمت بیٹے امیر عبد القادر کو باقاعدہ امیر منتخب کر کے مزاحمت کی جدوجہد کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
امیر عبد القادرؒ جذبہ جہاد کے ساتھ ساتھ فراست وتدبر کی نعمت سے بھی مالامال تھے، اس لیے انھوں نے اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے الجزائری عوام اور قبائل کو اعتماد میں لیا، وسیع تر مشاورت کا سلسلہ قائم کیا، آزادی کی فوج کو وقت کے ہتھیاروں اور جنگ کی نئی تکنیک سے مسلح کیا اور ایک باقاعدہ فوج منظم کر کے الجزائر پر حملہ آور فرانسیسی فوجوں کے خلاف میدان جنگ میں نبرد آزما رہے۔ انھوں نے ۱۸۳۲ء سے ۱۸۴۷ء تک مسلسل سولہ سال تک فرانسیسی فوجوں کے خلاف جنگ لڑی، بہت سے معرکوں میں فرانسیسی فوجوں کو شکست سے دوچار کیا اور ایک بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کر کے امارت شرعیہ کا نظام قائم کیا۔ وہ اس وقت تک لڑتے رہے جب تک الجزائری عوام اور اسباب ووسائل نے ان کا ساتھ دیا اور جب حالات کی نامساعدت نے انھیں بالکل تنہا کر دیا اور الجزائر کے قبائل ایک ایک کر کے الگ ہوتے گئے تو ۱۸۴۸ء میں انھوں نے اور کوئی چارۂ کار نہ دیکھتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔
انھیں گرفتار کر کے ۱۸۵۳ء تک فرانس کے مختلف قلعوں میں محبوس رکھا گیا اور پھر آزاد کر کے دمشق کی طرف جلاوطن کر دیا گیا۔ انھوں نے ۲۳؍ دسمبر ۱۸۴۷ء کو ایک مشروط معاہدے کے تحت خود کو فرانسیسیوں کے حوالے کیا تھا، مگر ان کی شرائط کو قبول کیے جانے کے بعد بھی حسب معمول بالاے طاق رکھ دیا گیا تو ایک موقع پر انھوں نے اس حسرت کا اظہار کیا کہ:
’’اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ہمارے ساتھ یہ کچھ ہونا ہے جو ہو رہا ہے تو ہم جنگ ترک نہ کرتے اور مرتے دم تک لڑتے ہی رہتے۔‘‘
وہ پہلے استنبول گئے اور پھر خلافت عثمانیہ کی ہدایت پر دمشق آ گئے جہاں انھوں نے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ مالکی فقہ کے بڑے علما میں سے تھے اور تصوف میں الشیخ الاکبر محی الدین بن عربیؒ کے پیروکار اور ان کے علوم کے شارح تھے۔ دمشق میں قیام کے دوران انھیں ایک اور معرکے سے سابقہ درپیش ہوا کہ خلافت عثمانیہ کی طرف سے شام میں مقیم مسیحیوں پر جزیہ کا قانون تبدیل کیے جانے کے بعد اس مسئلے پر مسلم مسیحی کشمکش کا آغاز ہوا اور بہت سے حلقوں کی طرف سے قانون کی اس تبدیلی کو ناکام بنانے کے لیے مسیحیوں کے خلاف مسلمان عوام کو بھڑکانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس پر امیر عبد القادر الجزائریؒ نے مسیحیوں کے خلاف اس یلغار کی مخالفت کی اور ان کی حمایت وتحفظ کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ اس وقت غصے میں بپھرے ہوئے عوام کے لیے امیر عبد القادر کا یہ اقدام قابل اعتراض تھا، لیکن وہ اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ بے گناہ مسیحیوں کی جانیں بچانا ان کا شرعی فریضہ ہے اور وہ ایسا کر کے اپنے اسلامی فرض کی تکمیل کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ امیر عبد القادر الجزائری کے اس جرات مندانہ اقدام کی وجہ سے کم وبیش پندرہ ہزار مسیحیوں کی جانیں بچیں جس کی وجہ سے انھیں مغربی دنیا میں بھی تحسین کی نظر سے دیکھا جانے لگا اور انھیں ’’امن کا ہیرو‘‘ قرار دے کر مغرب کے چوٹی کے سیاسی راہ نماؤں اور دانش وروں نے خراج تحسین پیش کیا، جبکہ نیو یارک ٹائمز نے ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ ’’عبدالقادر کے لیے یہ یقیناًعظمت کا اور حقیقی شان وشوکت کا باب ہے۔ اس بات کو تاریخ میں رقم کرنا کوئی معمولی بات نہیں کہ مسلمانوں کی آزادی کے لیے لڑنے والا سب سے ثابت قدم سپاہی اپنے سیاسی زوال اور اپنی قوم کے ناگفتہ بہ حالات میں عیسائیوں کی زندگیوں اور حرمت کا سب سے نڈر نگہبان بن کر سامنے آیا۔ جن شکستوں نے الجزائر کو فرانس کے آگے جھکایا تھا، ان کا بدلہ بہت حیرت انگیز طریقے سے اور اعلیٰ ظرفی سے لے لیا گیا ہے۔‘‘
امیر عبد القادر الجزائری کا یہ کردار دیکھ کر مجھے متحدہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک بڑے لیڈر مولانا عبید اللہ سندھیؒ یاد آ جاتے ہیں اور مجھے ان دونوں بزرگوں میں مماثلت کے بعض پہلو بہت نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً مولانا عبید اللہ سندھیؒ اگرچہ میدان جنگ کے نہیں، بلکہ میدان فکر وسیاست کے جرنیل تھے، مگر ان کی سوچ یہ تھی کہ ہمیں سیاست وجنگ کے روایتی طریقوں پر قناعت کرنے کی بجائے ان جدید اسالیب، تکنیک اور ہتھیاروں کو سیاست اور جنگ کے دونوں میدانوں میں اختیار کرنا چاہیے اور وہ عمر بھر اسی کے داعی رہے۔
انھوں نے جب دیکھا کہ وہ حرب وجنگ کے ذریعے سے برطانوی تسلط کے خلاف جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو انھوں نے اس معروضی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کے لیے عدم تشدد کا راستہ اختیار کر لیا اور بقیہ عمر پرامن جدوجہد میں بسر کر دی۔
امیر عبد القادر کی طرح مولانا سندھی نے بھی عملی تگ وتاز کے میدان کو اپنے لیے ہموار نہ پاتے ہوئے تعلیم وتدریس کا راستہ اختیار کیا اور ہندوستان واپسی کے بعد دہلی اور دوسرے مقامات میں قرآن کریم کے تعلیمی حلقے قائم کر کے اپنے فکر وفلسفہ کی تدریس وتعلیم میں مصروف ہو گئے۔
مولانا سندھیؒ مغربی تہذیب وثقافت اور تکنیک وصلاحیت کی ہر بات کو مسترد کر دینے کے قائل نہیں تھے، بلکہ اس کی ان باتوں کو اپنانے کے حامی تھے جو اسلامی اصولوں سے متصادم نہیں ہیں اور ہمارے لیے ضروری ہیں۔ اس کی وجہ سے انھیں بہت سے حلقوں کی طرف سے مطعون بھی ہونا پڑا۔
امیر عبد القادر الجزائری کو شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کا پیروکار، ان کے علوم کا شارح اور ان کے فلسفہ وحدت الوجود کا قائل ہونے کی وجہ سے ان کے فکر کے ڈانڈے ’’وحدت ادیان‘‘ کے تصور سے ملانے کی کوشش کی گئی (جس کی جھلک جان کائزر کی زیر نظر کتاب میں بھی دکھائی دیتی ہے)، حالانکہ وحدت الوجود اور وحدت ادیان میں زمین وآسمان کا فرق ہے اور شیخ اکبرؒ کے نظریہ وحدت الوجود کا مطلب وحدت ادیان ہرگز نہیں ہے۔ اسی طرح مولانا عبید اللہ سندھی کو بھی فرنگی تسلط کے خلاف سیاسی طور پر ہندوستانی اقوام کے ’’متحدہ قومیت‘‘ کے نظریہ پر ہدف تنقید بنایا گیا اور انھیں ’‘وحدت ادیان‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
امیر عبد القادر الجزائریؒ مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلمانوں کے جذبہ حریت اور جوش ومزاحمت کی علامت تھے اور وہ اپنی جدوجہد میں جہاد کے شرعی واخلاقی اصولوں کی پاس داری اور اپنے اعلیٰ کردار کے حوالے سے امت مسلمہ کے محسنین میں سے ہیں۔ ان کے سوانح وافکار اور عملی جدوجہد کے بارے میں جان کائزر کی یہ تصنیف نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کرانے میں یقیناًمفید ثابت ہوگی۔ ایسی شخصیات کے ساتھ نئی نسل کا تعارف اور ان کے کردار اور افکار وتعلیمات سے آگاہی استعماری تسلط اور یلغار کے آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ ہے اور اس سمت میں کوئی بھی مثبت پیش رفت ہمارے لیے ملی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
جولائی ۲۰۱۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter