Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

135 - 188
قاضی حسین احمدؒ
قاضی صاحب مرحوم کے ساتھ میرے تعلقات کی نوعیت دوستانہ تھی اور مختلف دینی و قومی تحریکات میں باہمی رفاقت نے اسے کسی حد تک بے تکلفی کا رنگ بھی دے رکھا تھا، ان کے ساتھ میرا تعارف اس دور میں ہوا جب وہ جماعت اسلامی پاکستان کے قیم تھے۔ پاکستان قومی اتحاد کے صوبائی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے مجھے اتحاد میں شامل جماعتوں کے راہ نماؤں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا ہوتا تھا، یہ رابطہ انتخابی مہم میں بھی تھا اور تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے چلائی جانے والی اجتماعی تحریک میں بھی تھا، بعد میں جب سینیٹ آف پاکستان میں مولانا قاضی عبد اللطیفؒ اور مولانا سمیع الحق کے پیش کردہ ’’شریعت بل‘‘ کے لیے ملک گیر عوامی جدوجہد منظم کرنے کا مرحلہ سامنے آیا تو اس کے لیے قاضی حسین احمد صاحب پیش پیش تھے اور انہوں نے اس سلسلہ میں بہت متحرک اور بھرپور کردار ادا کیا۔ اس تحریک کے لیے قومی اسمبلی کے اندر اور باہر دونوں محاذوں پر ’’متحدہ شریعت محاذ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے سربراہ مولانا عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ آف اکوڑہ خٹک تھے اور سیکرٹری جنرل قاضی حسین احمدؒ کو چنا گیا۔ مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داری میرے سپرد تھی جبکہ متحدہ شریعت محاذ کے سرگرم راہ نماؤں میں مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ ، ڈاکٹر اسرار احمدؒ ، مولانا معین الدین لکھویؒ اور مولانا محمد اجمل خانؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
متحدہ شریعت محاذ نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ان راہ نماؤں کی قیادت میں زبردست عوامی مظاہرہ کیا، قاضی حسین احمدؒ اس ساری مہم کا اہم اور متحرک کردار تھے، شریعت بل کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ قرآن و سنت کو ملک کے دستور میں سپریم لاء کی حیثیت حاصل ہوگی اور اس سے متصادم تمام قوانین، ضابطے اور رواجات ختم ہو جائیں گے۔ سینیٹ آف پاکستان نے یہ شریعت بل منظور کر لیا تھا مگر جب قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو میاں نواز شریف صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دور میں اسے قومی اسمبلی میں اس شرط کے ساتھ منظور کیا گیا کہ ’’بشرطیکہ ملک کا سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ اس سے متاثر نہ ہو‘‘ اور اس طرح دستور کی دیگر رسمی اسلامی دفعات میں ایک اور رسمی سی دفعہ کا اضافہ ہوگیا۔ قاضی صاحب محترم کے ساتھ اس سے قبل ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی رفاقت رہی جس کے نتیجے میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا، اس میں قادیانیوں کو اسلام کا نام استعمال کرنے سے قانونًا روک دیا گیا ہے اور ان کے لیے اسلام کی مذہبی علامات اور اصطلاحات کے استعمال کو قانونی جرم قرار دیا گیا ہے۔
اس دوران ایک دل چسپ واقعہ ہوا جس کا تذکرہ تو بعض مجالس میں کر چکا ہوں مگر اسے تحریری طور پر ریکارڈ میں تفصیل کے ساتھ لانے کا موقع نہ مل سکا۔ یہ اگر قاضی صاحب مرحوم کی زندگی میں ہو جاتا تو زیادہ بہتر تھا لیکن تقدیر کے فیصلوں کا کسے علم ہے؟ بہرحال اب بھی اسے ریکارڈ میں آجانا چاہیے، اس لیے تحریر کر رہا ہوں، اس دور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ میں منقسم تھی، درخواستی گروپ کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور سیکرٹری جنرل مولانا سمیع الحق تھے جبکہ فضل الرحمن گروپ کے امیر حضرت مولانا سید حامد میاںؒ اور سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمن تھے۔ درخواستی گروپ میں حضرت درخواستیؒ کی علالت کی وجہ سے حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ نائب امیر اول کے طور پر قائم مقام امیر کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اس دوران قاضی حسین احمد صاحبؒ نے جماعت اسلامی پاکستان کے قیم (سیکرٹری جنرل) کی حیثیت سے حضرت مولانا سید حامد میاںؒ سے رابطہ کیا کہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اگر یہ قرارداد پاس کر دے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جن افکار و نظریات سے جمعیۃ علماء اسلام یا دوسرے حلقوں کو اختلاف ہے، جماعت اسلامی انہیں مولانا مودودیؒ کے تفردات سمجھتے ہوئے ان مسائل میں جمہور علماء اہل سنت کے ساتھ ہے تو کیا اس قرارداد کے بعد جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی دونوں مل کر ملک میں دینی جدوجہد کی پوزیشن میں ہوں گی؟ مولانا سید حامد میاںؒ نے اس مسئلہ پر درخواستی گروپ کو بھی اعتماد میں لینا مناسب سمجھا اور مولانا محمد اجمل خانؒ سے بات کی، دونوں بزرگوں نے آپس میں مشورہ سے طے کیا کہ اس سوال کا کوئی حتمی جواب دینے سے پہلے مسلکی حوالہ سے تین بڑے بزرگوں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ، اور حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ دونوں حضرات نے ان تینوں بزرگوں کے پاس حاضر ہو کر مشورہ کرنے کی ذمہ داری میرے سپرد کی اور میں نے حضرت مولانا سید حامد میاںؒ اور حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کے نمائندے کے طور پر تینوں بزرگوں کے سامنے یہ سوال رکھا، اس پر تینوں بزرگوں کے جوابات مختلف تھے۔
والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے جواب دیا کہ اگر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اس مفہوم کی قرارداد پاس کر دے تو پھر ہمارے پاس جماعت اسلامی کے ساتھ اختلاف باقی رکھنے کا کوئی شرعی اور اخلاقی جواز نہیں رہ جاتا۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ نے ارشاد فرمایا کہ صرف اس مضمون کی قرارداد کافی نہیں ہوگی بلکہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کو مولانا مودودیؒ کی شخصیت کے بارے میں بھی اپنا موقف واضح کرنا ہوگا، جبکہ علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کا موقف یہ تھا کہ صرف قرارداد سے کام نہیں بنے گا اس لیے کہ اصل اختلاف جماعت اسلامی کے دستور کی اس شق سے شروع ہوا تھا جس میں جماعت اسلامی کے رکن کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ رسول خدا کے سوا کسی کو معیار حق نہ سمجھے، کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے اور کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو۔ اس پر حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے اعتراض کیا تھا کہ اس سے صحابہ کرامؓ کے معیار حق اور تنقید سے بالاتر ہونے کی نفی ہوتی ہے اور تقلید کی بھی نفی ہوتی ہے جو جمہور اہل سنت کے موقف سے انحراف ہے۔ اس سے اختلاف کا آغاز ہوا تھا اس لیے اگر جماعت اسلامی اختلافات کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے دستور کی اس شق میں علماء اہل سنت کے حسب منشا ترمیم کرنا ہوگی ورنہ قرارداد کے بعد بھی اصل اختلاف جوں کا توں رہے گا۔
میں نے جب تینوں بزرگوں کے جوابات حضرت مولانا سید حامد میاںؒ اور حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کو پہنچائے تو انہوں نے باہمی مشورہ سے علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ کے جواب کو زیادہ قرین قیاس قرار دیا اور مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ میں قاضی حسین احمد صاحب کو مل کر اس سے آگاہ کردوں۔ چنانچہ میں نے قاضی صاحب موصوف سے ملاقات کی اور انہیں یہ پیغام پہنچا دیا۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ مجلس شوریٰ میں قرارداد کی منظوری کی صورت تو میں کر سکتا ہوں لیکن جماعتی دستور میں ترمیم کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ اس پر دونوں طرف سے خاموشی اختیار کر لی گئی مگر تھوڑے عرصہ کے بعد قاضی حسین احمد صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوگئے، یہ وہ دور تھا جب وہ متحدہ شریعت محاذ کے سیکرٹری جنرل تھے اور میں سیکرٹری اطلاعات تھا، گڑھو شاھو لاہور کے علامہ اقبالؒ روڈ پر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کی تنظیم اسلامی پاکستان کے مرکزی دفتر میں متحدہ شریعت محاذ کی مرکزی کونسل کا اجلاس تھا، قاضی صاحب مرحوم جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو چکے تھے لیکن ابھی انہوں نے حلف نہیں اٹھایا تھا، اس اجلاس میں قاضی صاحب اور راقم الحروف ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، میں نے انہیں جماعت کا امیر منتخب ہونے پر مبارک باد دی تو انہوں نے بے تکلفی سے میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ اب تو میں ترمیم کی پوزیشن میں بھی آگیا ہوں اب بات کرو! میں نے ہنستے ہوئے دل لگی کے انداز میں کہا کہ ’’رسم تاج پوشی کے بعد بات کریں گے‘‘۔ یعنی وہ جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کا حلف اٹھا لیں تو اس کے بعد بات چلائیں گے، اس بات سے میں نے حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ اور حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کو آگاہ کر دیا لیکن اس سلسلہ میں اس کے بعد پھر کوئی بات کسی طرف سے بھی باضابطہ طور پر سامنے نہیں آئی اور یہ سارا قصہ تاریخ کی نذر ہوگیا۔
قاضی حسین احمد صاحبؒ کا خاندانی پس منظر جمعیۃ علماء ہند کا تھا، ان کے والد محترم حضرت مولانا قاضی عبد الرب صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جمعیۃ علماء ہند کے صوبائی صدر تھے، دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے، قاضی صاحبؒ کے بھائی مولانا عبد القدوسؒ بھی فاضل دیوبند تھے جو وفاقی شرعی عدالت کے جج رہے ہیں، قاضی صاحبؒ کا نام حسین احمد حضرت مدنیؒ کی نسبت سے رکھا گیا تھا اور قاضی صاحبؒ نے مجھے خود بتایا کہ وہ چھ سال کی عمر تک گفتگو نہیں کر سکتے تھے، ایک بار حضرت مدنیؒ ان کے گھر تشریف لائے تو ان کے والد محترمؒ نے حضرت مدنیؒ سے دعا اور دم کرنے کی درخواست کی، حضرت مدنیؒ نے دم کیا، دعا فرمائی اور قاضی حسین احمد صاحب کے منہ میں لعاب ڈالا، قاضی صاحب کہتے تھے کہ اس کے بعد میں نے بولنا شروع کر دیا، وہ کہا کرتے تھے کہ میں حضرت مدنیؒ کی زندہ کرامت ہوں۔
اس سلسلہ میں ایک لطیفے کی بات یہ ہے کہ قاضی صاحب جب جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو ان دنوں میں امریکہ گیا وہاں میرے میزبان جماعت اسلامی کے ایک معروف راہ نما تھے، ان کے والد محترم بھی عالم دین تھے، وہ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر مجھے لینے کے لیے آئے تو آمنا سامنا ہوتے ہی انہوں نے مجھے مبارک باد دی کہ مبارک ہو جماعت اسلامی پر جمعیۃ علماء اسلام نے قبضہ کر لیا ہے، انہوں نے یہ بات اگرچہ دل لگی کے طور پر کہی تھی مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری دینی جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے مخصوص داخلی ماحول کی وجہ سے پیدا ہونے والے بُعد کو کم کرنے اور مل جل کر کام کرنے کا کھلا ماحول قائم کرنے میں قاضی صاحب مرحوم کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔
قاضی حسین احمد ملک میں نفاذ اسلام اور دیگر دینی و قومی تحریکات کے لیے دینی جماعتوں اور مختلف مکاتب فکر کے درمیان مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار کرنے میں ہمیشہ متحرک رہتے تھے، ان میں بات سننے کا حوصلہ تھا، اس لیے ہم ان سے بعض نازک معاملات پر بھی بے تکلفی سے بات کر لیا کرتے تھے۔ جن دنوں قاضی صاحبؒ کا لندن میں دل کا بائی پاس آپریشن ہوا، میں لندن میں تھا، ان کی بیمار پرسی کے لیے حاضر ہوا تو وہاں مجلس میں افغانستان کی خانہ جنگی زیر بحث تھی، ان دنوں انجینئر گلبدین حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود کے دھڑوں میں سخت جنگ ہو رہی تھی، پروفیسر برہان الدین ربانی افغانستان کے صدر تھے، ان کے ساتھ انجینئر گلبدین حکمت یار کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا لیکن انہوں نے وزارت عظمیٰ قبول نہیں کی اور ان دونوں دھڑوں کے درمیان جنگ نے بہت تباہی پھیلائی۔ طالبان اسی خانہ جنگی کے رد عمل میں سامنے آئے تھے، میں نے اس مجلس میں قاضی صاحب مرحوم سے کہا کہ انجینئر حکمت یار اور پروفیسر برہان الدین ربانی کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی کے مسلسل جاری رہنے کے ذمہ دار آپ ہیں، قاضی صاحب تھوڑے سے پریشانی ہوئے اور پوچھا وہ کیسے؟ میں نے کہا کہ یہ دونوں آپ کے سیاسی حلقہ کے لوگ ہیں، سیاسی فکر کے حوالہ سے دونوں کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، آپ کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ آپ گلبدین حکمت یار کے ساتھ فریق بن کر کھڑے ہو جائیں، آپ ہی ان میں صلح کرانے کی پوزیشن میں تھے لیکن آپ نے حکمت یار کے حق میں فریق بن کر خود کو جانبدار بنا لیا ہے اس لیے اب کون ان میں صلح کرائے گا؟ یہ بات سن کر قاضی صاحبؒ تو خاموش ہوگئے لیکن مجلس کے دوسرے حضرات نے میری بات کی تائید کی۔
بہرحال قاضی حسین احمدؒ ایک فکرمند، حوصلہ مند اور دردِ دل سے بہرہ ور راہ نما تھے، ان کی جدائی ہم سب کے لیے صدمہ کی بات ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہو
تاریخ اشاعت: 
۱۳ جنوری ۲۰۱۳ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter