Deobandi Books

رفتگان

ن مضامی

5 - 188
مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست
قائدِ محترم حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی علمی، دینی اور سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالتے ہوئے ان کی جو امتیازی خصوصیات او رنمایاں پہلو دکھائی دیتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مرحوم نے قومی سیاست کے دھارے میں شامل ہو کر خود کو اس میں جذب نہیں کر دیا بلکہ وہ اس دھارے کو اپنے عزائم اور مقاصد کی طرف موڑنے میں کامیاب بھی رہے۔ اور اگر آپ آج سے پچیس سال قبل کی قومی سیاست کا آج کی قومی سیاست سے موازنہ کریں گے تو ان نمایاں تبدیلیوں کے پس منظر میں مولانا مفتی محمودؒ اور ان کے رفقاء کی جدوجہد جھلکتی نظر آئے گی۔
مفتی صاحب مرحوم کی جدوجہد کا سب سے تابناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے جو رائے قائم کی سوچ سمجھ کر قائم کی اور پھر اس پر نہ صرف پوری استقامت کے ساتھ پختہ رہے بلکہ بالآخر اسے منوا کر دم لیا۔ مثلاً 1956ء کے آئین اور 1973ء کے آئین پر ایک نظر ڈالیے، دونوں کے درمیان جہاں جہاں فرق ہے اس پر نشان لگائیے اور پھر حقائق و واقعات کے حوالے سے اس امر کی چھان بین کیجیے کہ 1956ء کے آئین کو 1973ء کے قالب میں ڈھالنے میں سب سے زیادہ کس کی کوششوں کا دخل ہے۔ 1956ء کا آئین جب نافذ ہوا تو اسلام کے بعض علمبرداروں نے یہ فتویٰ دے دیا کہ یہ آئین بالکل اسلام کے مطابق ہے اور اسلام کا مستقبل اب اس آئین کے ساتھ ہی وابستہ ہوگیا ہے۔ مگر مولانا مفتی محمودؒ نے اپنے رفقاء شیخ حسام الدین اور علامہ خالد محمود کی معیت میں اس آئین پر نظر ڈالی اور اسلامی نقطۂ نظر سے اس میں ترامیم پیش کیں اور اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس آئین کی متعدد دفعات قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔ مفتی صاحب مرحوم اور ان کی جماعت و رفقاء اپنے اس موقف پر قائم رہے جبکہ اسلام کا نام لینے والے کئی گروپوں نے 1971ء تک مسلسل 1956ء کے آئین کا راگ الاپا اور اسلام کو اس کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دینے پر مصر رہے۔
مفتی صاحب مرحوم نے آئین میں مسلمان کی تعریف، صدر اور وزیر اعظم کے مسلمان ہونے کی شرط، اور قرآن و سنت سے متصادم قوانین نہ بننے کی ضمانت کو ضروری قرار دیا۔ اور وہ رائے عامہ کے محاذ پر مسلسل جدوجہد کے بعد بالآخر ان امور کو 1973ء کے آئین میں شامل کرانے میں کامیاب ہوئے۔ جبکہ اسلامی نظام کے دیگر علمبرداروں کو نہ صرف یہ کہ ان مطالبات پر آواز اٹھانے میں جھجھک رہی بلکہ جب مولانا مفتی محمود مرحوم نے ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں مسلمان کی تعریف کو آئین میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تو ان حضرات کو زبانی تائید کی بھی توفیق نہ ہوئی۔ آئین میں ان امور کو شامل کراتے وقت اگرچہ مفتی صاحب مرحوم کو سب اسلامی طبقات کی حمایت حاصل ہوگئی تھی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان امور کو ایک مطالبہ کی صورت میں پیش کرنے اور رائے عامہ کو اس کے حق میں مسلسل ہموار کرنے کی جدوجہد کی سعادت صرف حضرت مفتی صاحب مرحوم، ان کی جماعت اور رفقاء کو حاصل ہوئی۔
مفتی صاحب مرحوم کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ آئین میں جن امور کی شمولیت کے مطالبہ کو 1957ء میں محض مجذوب کی بڑ سمجھا جاتا تھا اور 1969ء تک بڑے بڑے اسلام پسندوں کو ان مطالبات کی حمایت کی توفیق نہ ہوئی، وہی مطالبات 1973ء کے آئین میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ اس آئین کی سب سے امتیازی خصوصیت بنے۔ اسی طرح 1970ء کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے اس بحران پر نظر ڈالیے جس کے نتیجہ میں ملک دولخت ہوا۔ انتخابات کے بعد پنجاب اور سندھ سے اکثریت حاصل ہونے کے باعث مسٹر بھٹو مرحوم نے نعرہ لگایا کہ ملک میں صرف تین سیاسی قوتیں موجود ہیں (۱) فوج (۲) عوامی لیگ، اور (۳) پیپلز پارٹی۔ مفتی صاحب مرحوم نے اس دعوے کو چیلنج کیا اور کہا کہ ملک میں ایک چوتھی قوت بھی موجود ہے اور وہ سرحد و بلوچستان میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعتیں ہیں۔ اور پھر مفتی صاحب مرحوم نے لاہور میں اقلیتی پارلیمانی گروپوں کا کنونشن کر کے اس قوت کے وجود کا احساس دلایا اور اس سیاسی قوت کو اس طریقہ سے منظم کیا کہ خود مسٹر بھٹو کو نہ صرف اس طاقت کا وجود تسلیم کرنا پڑا بلکہ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیۃ علمائے اسلام کے ساتھ سہ فریقی معاہدہ تک بات پہنچی اور دو صوبوں میں حکومتیں بھی اس سیاسی قوت کے حوالہ کرنا پڑیں۔
الغرض مولانا مفتی محمودؒ کی یہ امتیازی خصوصیت تھی کہ وہ اپنے موقف پر سختی کے ساتھ قائم رہتے تھے اور اس کے حق میں دلائل و براہین کا انبار لگانے کے ساتھ ساتھ حالات اور جدوجہد کو اس طرح ترتیب دیتے تھے کہ مخالف کو اس موقف کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ رہتا۔
مفتی صاحب مرحوم کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے پاکستان کی سیاست میں، جو ایک عرصہ سے سادگی، اصول پرستی، شرافت اور دیانت سے نا آشنا ہو چکی تھی، انہی سنہری اصولوں کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا اور پھر ان کو اس وضع سے نبھایا کہ حق پرستی کی روایات ایک بار پھر نئے وجود سے مشرف ہو کر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنیں۔
یہ مفتی صاحبؒ کی سادگی تھی کہ قومی اسمبلی کے ممبر سے لے کر وزیر اعلیٰ اور قائدِ حزبِ اختلاف تک کئی مناصب پر فائز ہوئے لیکن اپنا اور گھر کا معیار زندگی وہی رکھا جو ابتداء سے چلا آرہا تھا۔ کیا مجال ان مناصب میں کوئی منصب مفتی صاحب مرحوم کے گھر کے ماحول، ان کے رہن سہن، ان کے بچوں کے لباس اور خورد و نوش کے معیار اور طرز میں کوئی تبدیلی لا سکے ہوں۔ اقتدار اور لیڈری کا نشہ نہ ان پر طاری ہوا اور نہ انہوں نے اسے اپنے بچوں کے قریب آنے دیا۔
مفتی صاحبؒ جب سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تو اس وقت قومی اسمبلی کے ممبر بھی تھے۔ کہنے لگے کہ بیک وقت دو تنخواہیں لینا ٹھیک نہیں ہے، بحیثیت ایم این اے تنخواہ وصول کرتے رہے مگر وزیر اعلیٰ کی تنخواہ وصول کرنے سے انکار کر دیا۔
وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے لیے الگ بنگلہ کا اہتمام کیا جانے لگا تو انکار کر دیا اور سرکاری گیسٹ ہاؤس میں ہی وزارت اعلیٰ کا دور مکمل کیا۔
مفتی صاحب مرحوم جب خان عبد الولی خان کی جگہ حزب اختلاف کے قائد چنے گئے تو اس حیثیت سے ملنے والے تمام الاؤنسز خود جناب ولی خان کے گھر جا کر ان کی بیگم کو پیش کر دیا کہ وہ جیل میں ہیں، میں ان کا قائم مقام ہوں، یہ الاؤنسز ان کے ہیں۔
جماعتی زندگی کا عالم یہ تھا کہ وہ جماعت کے قائد تھے اور تمام تر سرگرمیاں جماعت ہی کے لیے تھیں۔ وہ دورے بھی کرتے رہے، ہوائی جہاز کا سفر بھی شب و روز رہتا تھا اور دیگر اخراجات بھی ہوتے تھے مگر خال خال مواقع کے علاوہ وہ یہ تمام اخراجات اپنے وسائل سے پورے کرتے اور پھر جماعت سے تقاضہ بھی نہ ہوتا۔
ایوب خان مرحوم کے دور میں مناصب کی پیشکش ہوئی مگر اصولوں کو قربان کرنے پر تیار نہ ہوئے۔
جب وزارتِ اعلیٰ سے استعفٰی دیا تو کئی روز تک منتیں کی جاتی رہیں کہ وزارت اعلیٰ پر واپس آجائیں مگر مطالبات کی منظوری سے قبل واپسی کو مسترد کر دیا۔ اس دوران بھٹو مرحوم نے کہا کہ مفتی صاحب ہم نے اب تک آپ کو حکومت کب کرنے دی ہے، حکومت کا مزہ تو آپ کو اب آئے گا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہم حکومت میں مزے لینے کے لیے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لیے آئے ہیں۔ اس لیے مطالبات تسلیم ہوئے بغیر استعفیٰ کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے بعد بھی متعدد بار اقتدار میں شمولیت کی پیشکش ہوئی مگر کوئی پیشکش بار آور نہ ہوئی۔
اور یہ بھی اصول پرستی کا مظاہرہ تھا کہ اسلامی نظام کے نفاذ اور انتخاب کے واضح اعلان کی شرط پر جب موجودہ حکومت میں شامل ہوئے تو دونوں امور کا اعلان ہوتے ہی بلاتاخیر اقتدار سے باہر نکل آئے کہ ہمارا مقصد پورا ہوگیا ہے۔
مفتی صاحب مرحوم کی اصول پرستی کے اس پہلو سے تمام جماعتی احباب بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ دوستوں کے جائز کاموں میں ان کی سفارش اور مدد سے گریز نہیں کرتے تھے۔ لیکن جونہی کسی دوست نے ان سے کوئی ایسی بات کہہ دی جو ان کے اصول اور وضع داری سے ٹکراتی ہو تو دوٹوک معذرت کردی کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا، میں آپ کے اس کام کے لیے اپنا اصول نہیں توڑ سکتا۔ وقتی طور پر بعض دوست ناراض بھی ہو جاتے مگر بعد میں جب معاملہ سمجھتے تو ناراضگی خودبخود ختم ہو جاتی۔
شرافت و دیانت کی کیفیت یہ تھی کہ اپنے بڑے سے بڑے مخالف کے ساتھ بھی اختلاف کا اظہار ایک دائرے میں رہ کر کرتے، اختلاف کو ذاتی مخالفت کا رنگ دینے سے گریز کرتے اور اختلاف بھی طعن و اعتراض کی زبان میں نہ ہوتا بلکہ دلائل و براہین کے حوالے سے بات کرتے۔
الغرض حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز نے پاکستان کی قومی سیاست میں یہ اثر چھوڑا کہ اسلام کی وکالت کو مرعوبیت، جھجک اور خوفِ ملامت کے دائرہ سے نکال کر اعتماد، بے باکی اور جرأت کی شاہراہ پر گامزن کیا۔ اور سیاسی زندگی میں سادگی، اصول پرستی اور شرافت کی قدیم روایات کو ازسرِنو زندہ کر کے آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ راہ قائم کر دیے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۷ اپریل ۱۹۸۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حضرت مولانا لال حسین اخترؒ 1 1
3 مولانا سید شمس الدین شہیدؒ 2 1
4 مولانا عبد الحئیؒ آف بھوئی گاڑ 3 1
5 حضرت مولانا محمد حیاتؒ 4 1
6 مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست 5 1
7 مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور مولانا سید امین الحقؒ 6 1
8 چودھری ظہور الٰہی شہیدؒ 7 1
9 حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ 8 1
10 مولانا فضل رازقؒ 9 1
11 حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ 10 1
12 خان غلام سرور خان مرحوم 11 1
13 مولانا عبد الشکور دین پوریؒ 12 1
14 خان عبد الغفار خان مرحوم 13 1
15 والدہ ماجدہ کا انتقال 14 1
16 حضرت مولانا عبد الحقؒ، اکوڑہ خٹک 15 1
17 مولانا تاج الدین بسمل شہیدؒ 16 1
18 مولانا حافظ شفیق الرحمانؒ 17 1
19 الشیخ عبد اللہ عزام شہیدؒ 18 1
20 حضرت مولانا عزیر گلؒ 19 1
21 مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ 20 1
22 حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ 21 1
23 مولانا حکیم نذیر احمد آف واہنڈو 23 1
24 مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی 24 1
25 مولانا نور محمد آف ملہو والی / پیر بشیر احمد گیلانی / مولانا عبدا لرؤف جتوئی 25 1
26 مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی 26 1
27 مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین 27 1
28 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 28 1
29 محمد صلاح الدین شہیدؒ 29 1
30 حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور دیگر مرحومین 30 1
31 حضرت مولانا عبد الرؤفؒ 30 30
32 ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ 30 30
33 پیر جی عبد العلیم رائے پوری شہیدؒ اور دیگر مرحومین 31 1
34 مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ 32 1
35 حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ اور دیگر مرحومین 35 1
36 حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ 35 35
37 مولانا امیر حسینؒ 35 35
38 حاجی عبد المتین چوہان مرحوم 36 1
39 الشیخ جاد الحق علی جاد الحقؒ اور دیگر مرحومین 37 1
40 الشیخ محمد الغزالیؒ 37 39
41 حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم 37 39
42 غازی محمد انور پاشا 38 1
43 حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی 39 1
44 مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ 40 1
45 الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ 41 1
46 مولانا انیس الرحمان درخواستی شہیدؒ 42 1
47 لیڈی ڈیانا 43 1
48 حضرت مولانا مفتی محمودؒ ۔ ایک صاحب بصیرت سیاستدان 44 1
49 الحاج مولانا محمد زکریاؒ 45 1
50 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 46 1
51 مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ 47 1
52 حکیم محمد سعید شہیدؒ 48 1
53 حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ اور دیگر مرحومین 49 1
54 حضرت مولانا محمد طاسینؒ 49 53
55 حضرت مولانا عبد القادر قاسمیؒ 49 53
56 والدہ محترمہؒ مولانا حسین احمد قریشی 49 53
57 ماسٹر اللہ دین مرحوم 49 53
58 حضرت مولانا حافظ محمد عابدؒ، مولانا حافظ محمد نعیم الحق نعیمؒ 50 1
59 مولانا قاری محمد بشیرؒ آف ہری پور ہزارہ اور دیگر مرحومین 51 1
60 میاں جی دین محمد مرحوم 51 59
61 الحاج حکیم برکات احمد بگویؒ 51 59
62 مخدوم منظور احمد تونسوی کو صدمہ 51 59
63 مولانا محمد طیب شاہؒ ہمدانی اور دیگر مرحومین 52 1
64 مولانا قاضی عبد المالکؒ 52 63
65 مولانا محمد حنیف انورؒ 52 63
66 مولانا نذیر احمدؒ 52 63
67 مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن بازؒ اور دیگر مرحومین 53 1
68 حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ 53 67
69 الحاج مولانا فاروق احمد آف سکھرؒ 53 67
70 جناب حاجی کرامت اللہؒ 53 67
71 صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی 54 1
72 حضرت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر مرحومین 55 1
73 حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ آف مانسہرہ 55 72
74 حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ 55 72
75 حضرت مولانا مفتی ولی درویشؒ 55 72
76 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ 56 1
77 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ 57 1
78 حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ 58 1
79 حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور دیگر مرحومین 59 1
80 اہلیہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ 59 79
81 حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ 59 79
82 حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ 59 79
83 مولوی عبد الغفورؒ 59 79
84 حضرت مفتی عبد الشکور ترمذیؒ اور دیگر مرحومین 60 1
85 مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ 60 84
86 مولانا سلمان عباسیؒ 60 84
87 مولانا محمد اسحاق کھٹانہؒ 60 84
88 حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ 61 1
89 علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے مولانا مفتی محمودؒ تک 62 1
90 حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ اور دیگر مرحومین 63 1
91 مولانا سید منظور احمد شاہ آسیؒ 63 90
92 حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدیؒ 63 90
93 مولانا سید عطاء اللہ شاہؒ 63 90
94 خوش نویس حافظ محمد شوکت 63 90
95 حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ 64 1
96 حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 65 1
97 ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ 66 1
98 حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کا پیغام 67 1
99 مولانا عبد الرحیم اشعرؒ 68 1
100 نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم 69 1
101 حضرت حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ 70 1
102 مولانا اعظم طارق شہیدؒ 71 1
103 مولانا شاہ احمد نورانی ؒ 72 1
104 حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ 73 1
105 مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ 74 1
106 حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ 75 1
107 مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ 76 1
108 حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 77 1
109 مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی 78 1
110 مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ 79 1
111 الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم 80 1
112 حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ 81 1
113 مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ 82 1
114 حافظ محمد صادق مرحوم 83 1
115 مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ 84 1
116 مولانا سعید الرحمان علویؒ 85 1
117 مولانا منظور احمد الحسینیؒ 86 1
118 مولانا بشیر احمد خاکیؒ 87 1
119 دارالعلوم کبیر والا کی وفیات 88 1
120 الحاج سید امین گیلانی ؒ 89 1
121 قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم 90 1
122 ڈاکٹر غلام محمد مرحوم 91 1
123 مولانا علی احمد جامیؒ 92 1
124 مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم 93 1
125 حاجی غلام دستگیر مرحوم 94 1
126 خان عبد الولی خان مرحوم 95 1
127 علامہ محمد احمد لدھیانویؒ 96 1
128 نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم 97 1
129 مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ 98 1
130 محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل 99 1
131 حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ 100 1
132 حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ 101 1
133 مرزا غلام نبی جانبازؒ 22 1
135 مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ 102 1
136 مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ 103 1
137 مولانا سید امیر حسین شاہؒ گیلانی 104 1
138 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 105 1
139 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا سفر آخرت 106 1
140 حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات پر سلسلۂ تعزیت 107 1
141 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ 108 1
142 ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ 109 1
143 مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت 110 1
144 مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ 111 1
145 علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ 112 1
146 مولانا محمد عمر لدھیانویؒ 113 1
147 قاری عبد الحلیمؒ 114 1
148 ڈاکٹر اسرار احمدؒ 115 1
149 حضرت خواجہ خان محمدؒ 116 1
150 حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 117 1
151 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ 118 1
152 حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی 119 1
153 الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ 120 1
154 امیر عبد القادر الجزائریؒ 121 1
155 مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ 122 1
156 حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ 123 1
157 پیر آف پگارا سید مردان علی شاہ مرحوم 124 1
158 محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم 125 1
159 حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ 126 1
160 حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ 127 1
161 علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ 128 1
162 مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 129 1
163 مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ 130 1
164 حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ 131 1
165 چند دینی کارکنان کی وفات 132 1
166 مولانا مفتی محمد اویسؒ 133 1
167 مولانا سعید احمد رائے پوریؒ 134 1
168 قاضی حسین احمدؒ 135 1
169 پروفیسر غفور احمد مرحوم 136 1
170 مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 137 1
171 مولانا عبد الستار تونسویؒ 138 1
172 حضرت مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ 139 1
173 مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ 140 1
174 مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ 141 1
175 مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ 142 1
176 شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ 143 1
177 مولانا انیس الرحمن اطہر قریشیؒ 144 1
178 مولانا محمد اقبال نعمانی ؒ 145 1
179 مولانا قاری محمد عبد اللہؒ 146 1
180 مولانا عبد المتینؒ 147 1
181 مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ 148 1
182 مولانا شمس الرحمن معاویہ شہیدؒ 149 1
183 مولانا علاء الدینؒ 150 1
184 جناب نیلسن منڈیلا 151 1
185 میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم 152 1
186 مولانا حکیم محمد یاسینؒ 153 1
187 حضرت مولانامحمد امین صفدرؒ 154 1
188 مولانا محمد عبد اللہ عباسیؒ 155 1
189 مولانا محمد عالمؒ 156 1
190 مجید نظامی مرحوم 157 1
191 مولانا مفتی عبد الشکورؒ 158 1
192 مولانا مسعود بیگ شہیدؒ ، ڈاکٹر شکیل اوجؒ شہید 159 1
193 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 160 1
194 ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدؒ 161 1
195 حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم 162 1
196 حضرت مولانا محمد نافعؒ 163 1
197 شاہ عبد اللہ مرحوم 164 1
198 دو محقق علماء کی وفات 165 1
199 مولانا عبد المجید لدھیانویؒ 166 1
200 مولانا مشتاق احمد چنیوٹی ؒ 167 1
201 سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم 168 1
202 ملا محمد عمر مجاہدؒ 169 1
203 مولانا ضیاء القاسمیؒ ۔ چند یادیں 170 1
204 مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ 171 1
205 جنرل حمید گل مرحوم 172 1
206 مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ 173 1
207 مولانا عبد اللطیف انورؒ 174 1
208 مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ 175 1
209 مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ 176 1
210 غازی ممتاز قادریؒ شہید 177 1
211 حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ 178 1
212 مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ شہید 179 1
213 عبد الستار ایدھی مرحوم 180 1
214 مولانا حافظ عبد الرحمنؒ 181 1
215 قاری ملک عبد الواحدؒ 182 1
216 مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ 183 1
217 مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین 184 1
218 جنید جمشید شہیدؒ 185 1
219 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ 186 1
220 حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ 187 1
221 ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں سیمینار 188 1
222 مولانا محمد غفران ہزارویؒ اور دیگر مرحومین 33 1
223 مولانا عبد الرحیم آف شکرگڑھ 33 222
224 الحاج بابو عبد الخالق آف جہلم 33 222
227 حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ 34 1
Flag Counter