معراج کا سفر |
|
بڑھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ طائف جاکر وہاں کے سرداروں کو دعوت دیں، یہ لوگ نہیں مانتے ،شاید وہ مان جائیں، یہاں جی نہیں لگتا، شاید وہاں لگ جائے، یہ لوگ نہیں سنتے شاید وہ لوگ سنیں، اللہ شاید انہیں ذریعہ بنادے… ساٹھ میل کا سفر ہے، اللہ کی شان دیکھئے… پیدل سفر ہے،سواری کوئی نہیں، نہ اتنی استطاعت ہے، پتھریلی زمین ہے، پہاڑی علاقہ ہے… دعوت کا سفر ہے قیامت تک نمونہ قائم کرنا ہے کہ ترتیب کام کی یہ ہے، ساتھ مین کون ہے؟ تنہا زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ ! بڑی امیدوں کے ساتھ گئے تھے لیکن کیا ہوا؟… کسی ایک نے نہ سنی، بڑا ناروا سلوک کیا ،بڑا زبردست صدمہ پہنچایا… یوں کہہ لیجئے مشقتوں کے تمام مرحلوں میں سب سے کٹھن مرحلہ یہی تھا، طائف مشقتوں اور تکالیف کی آخری حد تھی، یہاں سے حالات نے نئی کروٹ لی ہے۔ دس دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام طائف میں رہا، جن تین سرداروں پر امید باندھ کر گئے تھے، بڑا نازیبا سلوک کیا ،سخت وسست الفاظ کہے،…حالانکہ کم ازکم اجنبی لوگوں کا سلوک ابتداء ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی ایسا نہ تھا۔ شہر کے اوباشوں کو پیچھے لگادیا، ’’وَجَعَلُوْا یَرْمُوْنَہُ بِالْحِجَارَۃِ حَتّٰی دُمِیْتْ قَدَمَاہُ (۱) پتھر ماررہے ہیں، قدم خون آلود ہوگئے، پنڈلیاں گھاؤ ہوگئیں، کپڑے لال ہوگئے، معصوم خون سے لال ہوگئے، پتھر مارتے جاتے اور مذاق اڑاتے جاتے، زخموں کی تاب نہ لاکر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ جاتے، تو یہ بد نصیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوپکڑ ------------------------------ (۱) زاد المعادج۳/۱۲۸