ہم سب کو یہ بات جان لینا چاہیے کہ والدین کے بعد معلم ہی ہے،جو بنیادی اسلامی تصورات کے ذریعے مسلمان قوم کے صالح اَفرادمیں اسلامی سیرت وکردار کی بنیاد رکھ سکتا ہے ، پھر وہ اپنی ذات کی اصلاح، بلکہ اس کی تکمیل کے بعد اپنے شاگردوں کے لیے ایک عملی مثال اور مینارۂ نور بن سکتا ہے، جس سے اس کے شاگر د ہر وقت نورِ اکتِساب کرسکتے ہیں، اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے، جب کہ استاذ واقعۃً اُستاذ ہو، کیوں کہ: ؎
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں!
آدمی، آدمی بناتے ہیں!
لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ اساتذہ کی، ایک بڑی تعداد اپنے فرائض کی حقیقت سے نا آشنا ہے۔
اس لیے اساتذہ اور ٹیچرس کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ :
’’مدرسین او رتمام ملازمین کا معاملہ مدرسہ، یا کسی اور ادارے کے ساتھ عقدِ اجارہ ہے، اور اجارہ یا تو وقتِ معلوم پر ہوتا ہے، یا عملِ معلوم پر، مدرسین چوںکہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اس لیے وہ اَجیرِخاص ہیں، اور اَجیرِخاص کے لیے وقتِ متعین میں مفوضہ کام کے علاوہ، دوسرے کام میں مشغول ہونا درست نہیں ہے، لہٰذا ہر ایسا کام جو مدرسین کے فرائضِ منصبی میں کسی قسم کی کوتاہی اور حرج کا سبب بنے، وہ شرعاً ناجائز ہوگا، بلکہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے تو اَجیرِخاص کے لیے وقتِ متعین میں نوافل پڑھنے کی عدمِ اجازت پر علماء کا اتفاق نقل فرمایا ہے،