جـج:(وکیل دفاع کی طرف مخاطب ہوکر):
آپ کے مؤکل پر اِغوا اور زنا کا مقدمہ دائر ہے، کیا آپ اپنے مؤکل کی طرف سے کوئی صفائی پیش کرنا چاہیں گے؟
وکیل دفاع: جی محترم جج صاحب!
میرے مؤکل کو اپنے اِن دونوں جرموں کا اعتراف ہے، مگر میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ انہیں اس بار معاف کردیں، آئندہ وہ اِس طرح کی حرکت نہیں کریں گے۔
جـج : شرعی قوانین وہ ہیں، جنہیں خود اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے لیے منتخب کیا، انہی میں ’’حدود‘‘ بھی داخل ہیں، اور ’’حدود‘‘ کے سلسلے میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ثبوتِ جرم کے بعد، اُس پر مرتب ہونے والی سزا کو عدالت معاف نہیں کرسکتی، کیوں کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ، وَلا تَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِيْ دِیْنِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَآئِفُۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} ۔’’زنا کار عورت اور زناکار مرد سو (دونوں کا حکم یہ ہے کہ) ان میں سے ہر ایک کے سو سو دُرّے مارو، اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنے پائے، اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہیے کہ دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر رہے۔‘‘ (سورۂ نور، آیت :۲)