رضی نے لکھا ہے کہ صفت کی تصغیر سے موصوف بہ کی ذات کی تحقیر مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس صفت کی تصغیر وتحقیر مراد ہوتی ہے مثلاً ضُویرب کا معنی ہے ذو ضرب حقیر ،اسی طرح أصیغر منک کا معنی ہے کہ کہ وہ تجھ سے تھوڑا ہی چھوٹا ہے تو أصیغر میں ذات کی تصغیر نہیں بلکہ صغر کی تصغیر مراد ہے کہ صغر میں تفاوت زیادہ نہیں ہے ۔
قولہ ۔ ونحو ما أحسنه شاذ ۔
ش:اسی بناء پر کہ فعل کی تصغیر نہیں آسکتی فعل تعجب کی تصغیر لانا شاذ ہے لیکن کوفیوں کے نزدیک جائز ہے کیونکہ ان کے نزدیک فعل تعجب اسم ہے لھذا تصغیر لانا عین قیاس ہے۔
قولہ ۔ ونحو جُمَیل وکُعَیت ۔۔موضوع علی التصغیر
ش: سوال ہوتا ہے کہ تصغیر مکبر کی فرع ہے ان الفاظ کی تصغیر پائی جارہی ہے لیکن مکبر ندارد؟
جواب ۔یہ الفاظ مصغر نہیں ہیں بلکہ اپنی وضع سے ہی اس وزن پر آئے ہیں تو جب مصغر نہیں تو سوال بھی باقی نہیں رہا۔
متن
وتصغير التَّرْخِيم تحذَف مِنْهُ كلّ الزَّوَائِد ثمَّ يصغر ك حُميد فِي أَحْمد وخولف بِالْإِشَارَةِ والموصول فالحِقت قبل آخرهما يَاءً وزيدت بعد آخرهما ألفٌ فَقيل ذَيَّا وتيَّا واللَّذيّا واللتيا واللذيان واللتيان واللذيون واللتيات ورفضوا تَصْغِيرَ الضمائرِ وَنَحْو أَيْن وَ مَتى وَمن وَمَا وَحَيْثُ ومنذُ وَمَعَ وَغير وحسبُك وَالِاسْم عَاملاً عمل الْفِعْل فَمن ثمَّ جَازَ ضويرب زيدٍ وَامْتنع ضويرب زيدا۔