ضمہ بر یاء ثقیل ہونے کے باعث ضمہ کو بھی حذف کر دیا ،پھر یا اور تنوین کے درمیان التقاء ساکنین آگیا ،یاء کو حذف کردیا تو مُرٍ ہوگیا )اس صورت میں بالاجماع حالت وقف میں اثبات یاء واجب ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ھذا مرٍ میں تو وہی اختلاف ہے جو ھذا قاض ٍ میں ہے لیکن یامرِی میں اتفاق ہے کہ یہاں حالت وقف میں اثبات یاء واجب ہے ۔
فائدہ ۔مُرٍ کی تعلیل میں یاء کی حرکت حذف کرنے کے بعد یاء اور تنوین کے درمیان التقاء ساکنین آجاتا تھا تو یاء کو حذف کردیتے تھے ،مگر اس صورت میں التقاء ساکنین لازم نہیں آتا کیونکہ یہاں تنوین نہیں پائی جاتی وجہ یہ ہے کہ یہ منادی مفرد معرفہ ہے جو مبنی بر رفع ہوتا ہے پس التقاء ساکنین ہی پیش نہیں آیا کہ یاء کو حذف کریں لھذا یاء کو باقی رکھا گیا ۔
قولہ :واثبات الواؤ والیاء وحذفهما فی افواصل والقوافی فصیح ۔۔
ش: مطلب یہ ہے کہ جن کلمات میں واؤ کو عام طور پر حذف نہیں کیا جاتا یا مختار یہ ہے کہ وہاں واؤ اور یاء کو حذف نہ کیا جائے اگر وہی کلمات فواصل او رقوافی میں واقع ہوں تو وہاں واؤ اور یاء کا حذف جائز اور فصیح ہے ۔ (فواصل سے وہ کلمات مراد ہیں جن پر آیات کا اختتام ہوتا ہے اور قوافی سے مراد ابیات کے آخر میں آنے والے ہم وزن کلمات ہیں )مثلاً یسرِی کی یاء کو نہ وصلا ً حذف کیا جاتا ہے نہ وقفاً مگر قرآن پاک میں آتا ہے والیل أذا یسر ۔یہاںیاء کو حذف کیا گیا ،کیونکہ فواصل کے مقام پر واقع ہے ۔
قولہ : وحذفهما فیهما فی نحو لم یغزوا ولم ترمی وصنعو قلیل ۔