ملفوظات حکیم الامت جلد 13 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد دوم ) ---------------------------------------------------------------- 46 بے مزگی ہی میں ہوتا ہے ۔ اس سے لذت کا غیر مقصود ہونا ثابت ہو گیا ۔ بلکہ بعض محققین کا قول ہے کہ جس عبادت میں لذت نہ ہو وہ ایک حیثیت سے لذت والی عبادت سے افضل ہے ۔ کیونکہ جب عبادت میں لذت مقصود ہوئی تو ممکن ہے وہ بوجہ لذت کے ادا کی گئی ہو اور امتحان اور کمال اس امر میں ہے جو خلاف طبع ہو ، مگر آج کل طالبین کا خیال اس کے بالکل برعکس ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ شیوخ میں خود خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں حالات کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ پیروں میں سے اور مشائخ میں سے اکثر خود بھی فن تصوف سے بے خبر ہیں ۔ مگر جبہ مشیخت زیب تن ہے اور تعلیم دیتے ہیں ۔ ان کو یہی خبر نہیں ہوتی کہ اصل مرض طالب میں کیا ہے اور اس کا علاج مناسب کیا ہے ۔ حالانکہ یہ نہایت ضروری ہے ۔ دیکھو اگر طبیب جسمانی مرض سے واقف نہ ہو تو اس کا علاج ہمیشہ مضر ہوتا ہے ۔ اسی طرح ان خام کاروں سے مدت العمر مریدوں کی تشویش دور نہیں ہوتی ۔ ( 40 ) روحانی مرض کے زائل پر فخر نہ کرے : فرمایا کہ مقصود تصوف سے یہ ہے کہ اخلاق کی اصلاح ہو جائے ، لیکن یہ کوئی فخر کی بات نہیں ۔ ہاں اس پر شکر کرنا چاہئے ۔ دیکھو اگر کسی کو مرض سے صحت حاصل ہو تو کبھی اس کو فخر کرتے نہ دیکھا ہو گا ۔ ہاں شکر کرتے ہیں کہ خدا نے ایک مرض سے نجات بخشی ۔ اس میں فخر کی کیا بات ہے ۔ اور اگر کسی کو کرامات اور معارف بھی میسر آ جائیں تو اس پر بھی کیا فخر کیا جائے کیونکہ وہ اپنے اختیار سے بالکل خارج ہیں ۔ بلکہ اس دولت کے حصول کے بعد یوں سمجھنا چاہئے کہ بادشاہ نے ایک چمار کو گراں بہا لعل دے دیئے ہیں کہ وہ جب چاہے واپس لے لے ۔ تو اس سے یہ چمار فخر نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح بندے کو چاہئے کہ حق تعالی کی مہربانی اور عطیے پر ہر وقت شکر کرے اور ہمیشہ ترساں و لرزاں رہے کہ ایسا نہ ہو مجھ سے اس امانت کے ادائے حقوق میں کوتاہی ہو جائے ۔ باقی فخر وغیرہ یہ سب خرابی ناواقفی کے سبب