احتشام الحسن کاندھلویؒ وغیرہ کے مشورہ سے مولانا کا انتخاب کیا، اور ایک مکتوب لکھا کہ:
’’اولین فرصت میں اس باب میں کچھ کام کرڈالئے، اس نیک کام کو انجام دینے کی سعادت آپ ہی سے مخصوص معلوم ہوتی ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۶۹)
لیکن بعض نامعلوم اسباب کی بنا پر یہ تجویز ملتوی ہوئی اور ڈاکٹر صاحب نے مولانا کو اس کے التواء کی اطلاع دی۔ نومبر ۱۹۴۶ء میں ڈاکٹر صااحب نے جامعہ ملیہ کا جشن سیمیں (سلور جبلی) منانے کا انتظام کیا، یہ بہت کامیاب جشن تھا، بڑی قدآور شخصیات اس مآں شریک تھیں ، ڈاکٹر صاحب نے جو خطبہ استقبالیہ پڑھا وہ اردو ادب وانشاء کا بہت اچھا نمونہ اور اُن کے سوزِ دروں اور دل کی تڑپ کا ثبوت ہے، ڈاکٹر صاحب نے اس جشن میں مولانا کو بھی شریک ہونے اور مقالہ پڑھنے کی دعوت دی، مولانا نے اپنا مقالہ ’’عہدِ نبوی کا نظام تعلیم‘‘ کے عنوان سے پیش کیا، پھر بعد میں اس مقالہ پر ڈاکٹر صاحب سے پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی، ڈاکٹر صاحب نے اس کے جواب میں لکھا:
’’آپ کا مقالہ بہت ہی اچھا تھا، اس پر کسی پیش لفظ کی ضرورت سچ پوچھئے تو ہے ہی نہیں ، آپ میری عزت افزائی چاہتے ہیں تو میں ضرور پیش لفظ لکھ دوں گا، اس لئے نہیں کہ اس سے لوگ مقالہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوں گے؛ بلکہ اس لئے کہ مجھے آپ کے ساتھ شریک ہونے کا شرف حاصل ہوجائے گا‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۷۵-۷۶ مختصراً)
لیکن پھر چند وجوہ سے یہ پیش لفظ نہیں لکھا جاسکا، ۱۹۴۸ء میں ڈاکٹر صاحب مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے وائس چأنسلر منتخب ہوئے، اس زمانہ میں جب بھی مولانا علی گڈھ تشریف لے گئے، ڈاکٹر صاحب نے بڑی محبت کا معاملہ کیا اور ناشتہ پر مدعو کیا، پھر ۱۹۵۷ء میں ڈاکٹر صاحب صوبہ بہار کے گورنر منتخب ہوئے، اس دور میں بھی مولانا نے اپنے سفر پٹنہ میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا وقت لیا، وقت مقررہ سے کافی دیر سے پہنچے تو ڈاکٹر صاحب کو منتظر پایا، ڈاکٹر صاحب بڑے پرتپاک انداز میں ملے۔ مولانا نے لکھا ہے کہ: