کی خاص کیفیت کے ساتھ ملاقات کی، اس کا اثر مولانا علی میاں کے دل پر اتنا گہرا ہوا کہ اس دعوتی کام میں زندگی لگادینے اور ہمہ تن منہمک ہوجانے کا شدید داعیہ پیدا ہوا، پھر یہی مولانا کی تبلیغی سرگرمیوں کا نقطۂ آغاز بنا، پوری زندگی مولانا نے دعوتی وتبلیغی ذمہ داریاں انجام دینے میں صرف کردی اور پھر بھی یہی احساس دامن گیر رہا کہ:
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
پہلی ملاقات کے بعد مولانا علی میاں لکھنؤ تشریف لاتے ہیں ، اندر جوش وجذبہ ابل رہا ہے، دل بے قرار ہے، دماغ صرف اسی مقصد کی تکمیل کے لئے استعمال ہورہا ہے، نہ دن کی پرواہ ہے نہ رات کی خبر، نہ راحت وسکون کا پتہ ہے اور نہ عیش آرام کی خواہش، ہر لمحہ ولحظہ صرف یہی تمنا اور کوشش ہے کہ ایمان وعمل لوگوں کے دلوں میں اور زندگیوں میں رچ بس جائے، ہر دم اسی کی جستجو اور آرزو ہے، یہی دلچسپی کا سامان ہے اور توجہ کا مرکز بھی، پھر اس حقیقت پر یقین بھی ہے کہ:
نشانِ منزلِ جاناں ملے نہ ملے
مزے کی چیز ہے یہ ذوقِ جستجو میرا
کبھی ندوۃ العلماء کے طلبہ کے ساتھ اس محلہ میں جارہے ہیں ، کبھی اُس علاقہ میں پہنچ رہے ہیں اور ہر جگہ تجدیدِ ایمان، تلقینِ دین اور تبلیغِ نماز کا پیغام دے رہے ہیں ۔
ان مخلصانہ سرگرمیوں کی اطلاع جب رئیس التبلیغ تک پہنچتی ہے، تو ان کے دل کی مسرت کا عالم نہ پوچھئے، قلب وجگر شادشاد ہوجاتے ہیں ، بے قرایوں کو قرار، خلش وتپش اور اضطراب وقلق کو سکون محسوس ہوتا ہے۔ اور حضرت مولانا علی میاں ؒ کے جوہر کھلتے ہیں ، تو پھر محبت وشفقت کا ایک اتھاہ سمندر رئیس التبلیغ کے دلِ درد مند میں موجیں مارتا ہے، کبھی اپنے مکتوب میں ’’عمدۃ الآمال والامانی‘‘ سے مخاطب ہوتے ہیں ، تو کبھی ’’جوہر تاباں ، معدنِ