(مراد برادر عزیز مولانا محمد اسعد قاسمی استاذ حدیث دارالعلوم الاسلامیہ بستی ہیں ) چھوٹے میاں سبحان اللہ! فرزند اکبر نے باپ کی سعادتوں میں اضافہ کیا، تو دوسرے لخت جگر باپ کی عبادتوں کی روشن علامت، کہنے دیجئے کہ مولانا باقر صاحب کی شبہائے دراز اگر سجدہائے شکر سے لبریز ہوں اور دن کے ہنگامے رب منعم وذو الجلال والاکرام کی ایک ایک نعمت پر ادائیگی شکر کی توفیق سے معمور، تو بھی واقعی شکر کا حق ادا نہ ہوگا۔
ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے، حضرت مولانا علی میاں الندوی المرحوم کی تابندہ وپاائندہ حیات کے ولولے تاریخ کی امانت، ان کی نگارش، ملی کارناموں کا شان دار مرقع، ان کی تصنیف دل ودماغ کے لئے پیغام، ان کی تقریر قافلوں کے لئے صدائے رحیل، اب یہ سمندر ہمیشہ کے لئے آغوشِ ساحل میں محو خواب، اب قلم کی جولانیاں امانت قرطاس، آندھی رک چکی، علم وفن کی صرصر بظاہر ہمیشہ کے لئے خاموش؛ لیکن کہاں ؟ ابھی رکئے اور ٹھہرئیے! سنئے اور محفوظ رکھئے! دنیا کروٹیں لے گی، گرد وپیش بدلے گا، بطن گیتی سے نئی زمین اور نیا آسمان رونما ہوگا، مگر ہمہ گیر الٹ پھیر کے باوجود علی میاں ؒ زندہ رہیں گے، جیتی جاگتی دنیا انہیں بھلا نہ سکے گی، سانحۂ وفات پر ایک سال بھی نہیں گزرا کہ ان پر بہت لکھا جاچکا، مگر ابھی بہت سے رخ نقاب کشائی کے منتظر، عزیز محترم مولانا محمد اسجد القاسمی الندوی نے بھی ایک بھرپور مقالہ میں مرحوم کی تاب دار وآب دار زندگی کے بیشتر ابواب روشن اور منور کئے، عزیز مؤلف کا علم علوم قاسمیہ کا امین ان کا قلم ندوۃ العلماء کے امتیاز کا حامل، تحریر شگفتہ، نگارش سلیس، جو خامیاں تھیں انہیں جلیل اساتذہ نے دور کیا، جو باقی رہ گئیں انہیں عمر کی پختگی ہمیشہ کے لئے ختم کردے گی، انشاء اللہ تعالیٰ۔
(حضرت مولانا) نظر شاہ کشمیری (صاحبؒ)
۱۱/۵/۱۴۲۱ھ
rvr