ومن ثمَّ كَانَ لَازِماً ۔یعنی چونکہ یہ افعال اپنے صاحب کولازم ہوتے ہیں ،متعدی نہیں ہوتے اسی لیے یہ باب بھی لازم آتا ہے ۔
سوال ۔آپ نے کہا یہ باب لاز م استعمال ہوتا ہے حالانکہ رحُبتک الدار میں متعدی استعمال ہوا ہے ؟
جواب ۔ مصنف فرماتے ہیں حقیقت میں یہ غیر متعدی ہے کیونکہ اصل میں رحُبت بک الدارُ تھا ۔پھر اختصار کیلئے ب کو حذف کر دیا گیا۔
فائدہ ۔رضی نے اس تاویل کو تعسف قرار دیا ہے اور اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ وسع کے معنی کو متضمن ہے اس وجہ سے متعدی ہے ۔
سوال ۔سُدتُّہ (اصل میں امام کسائی کے نزدیک سوُدتُّہ تھا یعنی فعُل باب سے تھا بعد میں اس کی حرکت نقل کر کے فاء کو دیدی التقاء ساکنین کی وجہ سے واؤ گر گیا تو سدتہ ہوگیا تو یہ باب )باب فعُل سے ہونے کے باوجود متعدی آیا ہے ۔
جواب۔بعض صرفی حضرات نے اس کا جواب یہ دیا کہ سُدت اور بِعت اصل میں سوَدْتُ اور بَیَعْتُ تھے یعنی فعَل سے تھے ۔تو جب قانون کی وجہ سے عین کلمہ کو حذف کر کے اس کی حرکت کو نقل کیا جاتا تو واوی اور یائی میں کوئی فرق باقی نہ رہتا ۔لھذا اس فرق کو باقی رکھنے کے لیے علماء نے اولاً واوی میں عین کلمہ کو ضمہ اور یائی میں کسرہ دی پھر اس کی حرکت کو فاء کلمہ کی طرف منتقل کیا تو سُدتُّ اور بِعت ہو گیا ۔
"فالصحیح " سے ابن حاجب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ جواب درست نہیں ، صحیح جواب یہ ہے کہ ابتداء میں عین کلمہ کی فتح کو نقل کیا گیا پھر التقاء ساکنین کی وجہ سے اس عین کلمہ حذف کر دیا