وَالْمَكَانِ والآلةِ والمصغرِ والمنسوبِ وَالْجمعِ والتقاءِ الساكنينِ والابتداءِ وَالْوَقْفِ وَقد تكون للتوسُّع كالمقصورِ والممدودِ وَذي الزِّيَادَة وَقد تكون للمجانسةِ كالإمالةِ وَقد تكونُ للاستثقال كتخفيف الْهمزَةِ والإعلالِ و الإبدالِ والإدغامِ والحذفِ۔
شرح
اب تک ابنیہ کا بیان چل رہا تھا اب احوال ابنیہ کو ذکر کرنے لگے ہیں فرماتے ہیں ابنیہ پر جو احوال طاری ہوتے ہیں اس کے مختلف اسباب ہیں ۔
۔کبھی وہ احوال اس لیے طار ی ہوتے ہیں کہ ضرورت ہوتی ہے ۔ضرورت کی دو قسمیں ہیں ضرورت لفظی اورضرورت معنوی۔
ضرورت معنوی کا مطلب یہ ہے کہ معنی میں تغیر کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے حال طاری ہوتا ہے جیسے ماضی ۔مضارع ،امر ،اسم فاعل،اسم مفعول ،صفت مشبہ،افعل التفضیل،مصدر،اسم زمان،اسم مکان،اسم الہ،مصغر ،اسم منسوب اور جمع۔
ضرورت لفظی کا مطلب ہے کہ جس کے بغیر کلمہ کا تلفظ درست نہ ہو یا ممکن ہی نہ ہوجیسے التقاء ساکنین کیونکہ اس ضرورت کا اعتبارکیے بغیر بعض دفعہ کلمہ کا تلفظ کرنا ہی ممکن نہیں رہتا۔
۔ پھر ضرورت لفظی کبھی تو لازم ہوتی ہے جیسے پہلی دو مثالوں میں اورکبھی استحسانی ہوتی ہے جیسے وقف ۔ وقف میں ضرورت استحسانی اس طرح ہے کہ وقف نہ کرنے سے بھی کلمہ پر کوئی فرق نہیں پڑھتا۔
۔ کبھی احوال توسع کے لیے طاری ہوتے ہیں تاکہ کلام میں وسعت حاصل ہو جائے مثلا ً ایک ہی معنی کے لیے کبھی کلام مقصور ،کبھی ممدود، کبھی مجرد اور، کبھی مزید لایا جاتا ہے ۔