جائز ہے ۔ جیسا کہ ایامی ٰ اور یتامیٰ کو وجاعی اور حباطی پر حمل کیا گیا ہے حالانکہ أیامی کا مفرد أیّم ہے بروزن فیعل ۔ اور یتامی ٰ کا مفرد یتیم ہے بروزن فعیل ۔ اور وجاعی اور حباطی کا مفرد وجِع ،اور حبِط ہے یہ حمل بھی تشارک معنوی کی بناء پر کیا گیا ہے کیونکہ ان سب کے معنی میں غم کا معنی پایاجاتا ہے ۔
متن
الْمُؤَنَّث نَحْو صَبِيحَةٌ على صبائحَ وصِباحٍ وَجَاء علی خلفاءَ وَجعلُها جمعَ خليفٍ أولٰى حملا على الْأَكْثَروَنَحْو عَجُوز على عَجَائِزَ ۔
شرح
فعیل جب کہ مقرون بالتاء ہو یعنی فعیلة ہو تو اس کی جمع فعائل وزن پر آتی ہے جیسے صبیحة سے صبائح ،یہ وزن مؤنث کے ساتھ خاص ہے ۔ اس کے علاوہ فِعال وزن پر بھی جمع آتی ہے جیسے صباح ،نیز فُعلاء وزن پر بھی آتی ہے جیسے خلیفة سے خُلفاء لیکن خلیفة کی تاء چونکہ مؤنث کی نہیں ہے اس لیے واحدی نے کہا کہ خلیفة اصل میں خلیف ہے اور خلفاء فعیل مذکر (خلیف)ہی کی جمع ہے نہ کہ مؤنث(خلیفۃ)کی۔
قولہ۔ ونحو عجوز علی عجائز ۔۔۔
ش: فَعول صفتی کی جمع تکیسر فعائل وزن پر آتی ہے جیسے عجوزسے عجائز ۔ رضی نے لکھا ہے کہ جو فعول مؤنث کے معنی میں ہو اس کی جمع فعائل وزن پر آتی ہے ۔
متن
فَاعل الِاسْم نَحْو كَاهِل على كواهلَ وَجَاء حُجرانٌ وجِنّانٌ الْمُؤَنَّث نَحْو كاثِبةٍ على كواثِبَ وَقد نزلُوا فاعِلاءَ مَنْزِلَته فَقَالُوا قواصِعُ ونوافِقُ ودوامُّ وسوابُّ