سوال ۔ آپ نے جو حکم صفات کا بیان کیا ہے وہ لَجَبات اور رَبَعات سے ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ یہ دونوں باوجود صفات سے ہونیکے مفتوح العین ہیں۔
جواب یہ اصل میں اسم ہیں اور ہماری بحث صفات محضة سے ہے ۔
قولہ۔ وحکم نحو أرض ۔۔ کذلک
ش: یعنی مؤنث سماعی کا حکم مؤنث قیاسی بالتاء والا ہے بالفاظ دیگر مؤنث بتاء مقدرة کا حکم مؤنث بتاء ظاہرہ والا ہی ہے ۔مثلا أرض فَعْلة کے وزن پر قیاس کیا جائے عُرس فُعلة کے وزن پر اور عِیر فِعلة کے وزن پر تو اس کی جمع میں فَعلة فِعلة اور فُعلة والے احکام جاری ہونگے ۔
قولہ ۔ وبات سنة جاء فيه ۔ سنون ۔۔
ش: یعنی اگر کلمہ فَعلة وزن پر ہو اور محذوف اللام ہوتو جمع میں لام کلمہ کے عوض واؤ نون لاتے ہیں اور اول میں تغیر کرتے ہیں پھر کبھی کسرہ دیتے ہیں اور کبھی فتحہ جیسے سَنَة میں سِنون اور قُلَّة میں قِلون ۔ کبھی اول میں تغیر نہیں بھی کرتے جیسے ثُبَة میں ثُبون (از جاربردی ۔) کبھی لام کلمہ کو رد کرکے الف تاء کیساتھ جمع لاتے ہیں جیسے سَنَة میں سنوات اور عِضَة میں عَضوات۔
نیز کبھی بغیر لام کلمہ کو ردک یے بھی الگ تاء کے ساتھ جمع لائی جاتی ہے جیسے ثُبَة میں ثبات اور ھَنَة میں ھَنات
اور جاء اٰم کأکم کا مطلب یہ ہے کہ اس باب میں جمع قلت أفعل وزن پر آئی ہے جیسے أم أمة کی جمع ہے ۔أمة کی اصل أمَوَة تھی اور آم اصل میں أأمو تھا ہمزہ ثانی کو الف سے بدل دیا اور واؤ کو یاء سے پھر قاض ٍ والی تعلیل کی تو آمٍ ہو گیا جیسے آکم أکمة میں ۔
متن