والمركب ينْسب إِلَى صَدره ك بعليٍّ وتأَبَّطِيٍّ وخَمْسِيّ فِي خَمْسَةَ عشرَ علماً وَلَا ينْسَب إِلَيْهِ عددا والمضاف إِن كَانَ الثَّانِي مَقْصُودا أصلا كَابْنِ الزبير وَأبي عَمْروٍ قيل زُبيرٌّي وعَمرِيٌّ وَإِن كَانَ ك عبد منَاف وامرئ الْقَيْس قيل عَبدِي وأمْرَئيٌّ وَالْجمع يردّ إِلَى الْوَاحِد فَيُقَال فِي كتب وصحف ومساجد وفرائض كتابيٌّ وصُحفيٌّ ومسجدي وفرضي وَأما مَسَاجِد علما فمساجدي كأنصاري وكلابي وَمَا جَاءَ على غير مَا ذكر فشاذ وَكثُر مَجِيءُ فَعَّالٍ فِي الْحَرْف كبَتَّاتٍ وعَوَّاج وثَوَّاب وجَمَّال وَجَاء فَاعل أَيْضا بِمَعْنى ذِي كَذَا كتامر وَلابْن ودارع ونابِل وَمِنْه {عيشة راضية} وطاعم وكأس۔
شرح
یہاں سے مرکب کی نسبت کا بیان شروع ہورہا ہے رضی نے لکھا ہے کہ تمام اقسام مرکبات اپنے صدر کی طرف منسوب ہوتی ہیں عام ہے کہ جملہ محکیہ ہو جیسے تأبطّ شر ،یا غیر جملہ ہو نیز عام ہے کہ ثانی حرف کو متضمن ہو جیسے خمسة عشر یان نہ ہو جیسے بعلبکّ اسی طرح مرکب اضافی میں بھی مضاف کی طرف نسبت ہوگئی اگرچہ اس میں کچھ تفصیل ہے ۔
پھر اس باب میں مصنف رحمہ اللہ نے تقریبا ٣ قواعد بیان کیے ہیں ۔
١۔ مرکب منع صرف یا مرکب بنائی علم ہونے کی حالت میں یا مرکب جو جملہ ہو ہر ایک اپنے صدرکی طرف منسوب ہوگا ۔
٢۔ مرکب اضافی میں اگر مضاف الیہ اصلا مقصور ہو جیسے ابن الزبیر کہ زبیر کا بیٹا ہونا اصل مقصود ہے تو اس صورت میں پہلے جز کی نسبت میں نسبت نہیں لائی جائے گی لھذا بن الزبیر میں زُبیریّ کہا جائے گا۔