براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
زیادہ ہے گو ان علوم کو قربِ الٰہی میں دخل نہ ہو۔ پس حضرت خضر علیہ السلام کی فضیلتِ جزئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلتِ کلّی کے منافی نہیں۔ یہ ہمارے حضرت مرشدی تھانوی رحمۃاﷲ علیہ کی ارشاد فرمودہ تحقیق ہے۔ اسی سنّتِ الٰہیہ کے مطابق حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کے لیے غیر استاد تو ہو ہی نہیں سکتا تھا لیکن آپ کے شرفِ سیادت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حق تعالیٰ نے آپ کے لیے کسی پیغمبر کو بھی استاد نہیں بنایا۔ میاں نے براہِ راست اپنی بولی سکھائی ہے۔ پھر میاں کی بولی کا کون مقابلہ کرسکتا ہے ؎ گر چہ قرآں از لبِ پیغمبر ست ہر کہ گوید حق نگفت او کافر ستضرورتِ صحبتِ کاملین پر قرآنی استدلال جس طرح کتاب اﷲ کا نزول امّت کی ہدایت کے لیے ضروری ہے اسی طرح اس کتاب کی تعلیم اور اس پر عملی مشق کے لیے رسول اﷲ کی بعثت بھی ضروری ہے۔ چناں چہ حق تعالیٰ نے قرآن کی شان میں جہاں یہ ارشاد فرمایا ہے : نَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؎ یعنی قرآن کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت فرماتے ہیں وہیں متّصلاًحضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی شان بھی ارشاد فرمادی: وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ؎ اور بے شک آپ صراطِ مستقیم کی ہدایت فرماتے ہیں۔ اس کو متّصلاً نازل فرما کر یہ بتادیا کہ قرآن کی شانِ ہدایت جو آیتِ بالا میں ارشاد ہوئی ہے اس سے اہلِ عرب کو دھوکا نہ لگ جائے کہ بس جی ہم عربی زبان کے ماہر ہیں،قرآن سے ہدایت حاصل کرلیں گے۔ فوراً تنبیہ فرمائی ہے کہ ہمارے رسول سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتے۔ ------------------------------