براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ریا کا اِمالہ اسی طرح ریا کا امالہ یہ ہے کہ پہلے مخلوق کو دکھانے کے لیے عبادت کرتا تھا، اب اپنے اﷲ میاں کو دکھانے کے لیے عبادت کرتا ہے۔ مادہ وہی ہے مگر مصلحِ کامل نے مصرف بدل دیا۔اِمالۂ حرص و طمع اسی طرح حرص و طمع کو دنیا کے لیے صَرف کرتا تھا ،اب مصرف بدل دیا گیا اب اسی حرص و طمع کو حق تعالیٰ کی مرضی حاصل کرنے میں صرف کرتا ہے۔ حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم کی شان میں حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: یَبْتَغُوْنَ فَضْلًامِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا۔؎ یہ لوگ ہماری محبت میں ہماری مہربانی اور خوشنودی کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ہر وقت یہ فکر دامن گیر ہے کہ کون سا ایسا کام کروں کہ میرا اﷲ مجھ سے خوش ہوجائے۔ یَبْتَغُوْنَ صیغہ مضارع کا ہے جس میں شان تجدّد استمرار کی ہے۔ اس شان کی رعایت سے ترجمہ یہی ہوگا، یعنی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ایک اور اشکال اور اس کا حل حق تعالیٰ نے اپنے کرم سے ایک عجیب مضمون وارد فرمایا ہے جو اہلِ علم کے لیے نعمتِ عظمیٰ ہے وہ یہ کہ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے اس آیتِ کریمہ کا ترجمہ بھی خوب فرمایا ہے ’’اور حرص کا نفوس کے ساتھ اقتران کردیا گیا ہے۔‘‘ اب یہاں کون کہہ سکتا ہے کہ جب نفسانی خواہشات کا ہمارے ساتھ اقتران خدا ہی کی طرف سے ہے تو پھر ہم ان سے کیسے مفر پاسکتے ہیں اور ان امراضِ نفسانیہ سے صحت یاب کیسے ہوسکتے ہیں؟ تو اس اشکال کا جوابِ ------------------------------