براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
حاصل یہ کہ ہر انسان روحانی مریض ہے۔ کوئی شخص دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ہم امراضِ روحانیہ سے بالکل پاک و صاف ہیں، اور اگر کوئی دعویٰ کرے بھی تو یہ دعویٰ بھی من جملہ ایک روحانی مرض کے ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ؎ ترجمہ: وہ یعنی اﷲ تعالیٰ تم کو خوب جانتے ہیں، جب تم لوگوں کو زمین سے پیدا فرمایا تھا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے تو تم اپنے کو مقدّس سمجھا مت کرو، تقویٰ والوں کو وہی خوب جانتا ہے۔ دوسری جگہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہوَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ؎ ہمارے حضرت مرشد تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس آیت کا یہ ترجمہ فرمایا ہے ’’اور حرص کا نفوس کے ساتھ اقتران ہے۔‘‘ اگر ہر انسان اپنے دل کا جائزہ لے تو سینکڑوں عیوب اور امراض اپنے اندر محسوس کرے گا۔ حسد، بغض، کینہ، خود بینی، تکبر، حُبِّ دنیا، حرص و طمع، بخل، ناشکری، بے صبری، ریا، تفاخر، مداہنت، بزدلی، غصّہ، شہوت ہر انسان میں یہ مادّے کم و بیش ہوتے ہیں اور سالہا سال کے مجاہدات سے ان اخلاقِ رذیلہ کا اخلاقِ حمیدہ کی طرف صرف اِمالہ ہوجاتا ہے اور یہی مطلوب ہے۔ بندہ اتنے ہی کا مکلف ہے، ازالہ نہیں ہوتا ہے اور نہ بندہ اس کا مکلف ہے۔بخل کا اِمالہ امالہ کا مفہوم یہ ہے کہ مثلاً قبل اصلاحِ نفس پہلے نیک کاموں میں مال کو خرچ کرنے سے بخل کرتا تھا،اب وہ اسی قوت سے بُرے کاموں میں خرچ سے رکتا ہے۔ اگر بخل و امساک کا مادہ ہی نہیں ہوتا تو بُرے کام میں بھی خرچ سے نہ رک سکتا۔ ------------------------------