براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اہلِ عرب کے سینکڑوں اشعار کے دفاتر اس اُمّی رسول کے سامنے شرمندہ ہوکر رہ گئے۔ جس وقت حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم تلاوتِ قرآن فرماتے تھے تو حق تعالیٰ کی رحمت تھی کہ جانیں نہیں نکلتی تھیں، دلوں کو سنبھال دیتے تھے۔ ورنہ اگر جنازے ہی نکلتے تو پھر اسلام کن سے پھیلتا۔ قرآن کے مقابلے میں حق تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ اچھا اس کتاب کے مثل تم کوئی کتاب لاؤ، پھر ارشاد فرمایا کہ اچھا دس ہی آیات اس کے مثل لاؤ، پھر ارشاد فرمایا اچھا ایک محدود ٹکڑا ہی اس کے مثل لاؤ۔ سبحان اﷲ!اس تدریجی نزول میں کس قدر بلیغ انداز سے مشرکینِ عرب کو شکست دی گئی ہے۔ اس تدریج میں کس قدر لاگ دھرا گیا ہے۔ دنیا میں اﷲ کو نہیں دیکھا لیکن اﷲ کے کلام کو دلیل سے دیکھ لیا۔ بس گویا کہ اﷲ کو دیکھ لیا۔ اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم نے حیاتِ دنیویہ ہی میں اﷲ تعالیٰ کو دیکھا۔ یہ شرف بنی نوع انسان میں کسی کو حاصل نہیں تھا۔ آپ کے خمیر کے اجزائے لطیفہ ایسے لطیف تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام صفاتِ ملکوتیت کے باوجود فرماتے ہیں کہ اے سید الرسل! اب اس کے آگے سرمو اگر بڑھوں گا تو میرے پَر جل جائیں گے ؎ اگر یک سرموے برتر پرم فروغِ تجلّی بسوزد پرمایک اشکال اور اس کا حل بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ سے اہلِ رسم کیوں گھبراتے ہیں؟اس مثلیت سے تو آپ کی شانِ رفیع کا ثبوت مل رہا ہے۔ اگر یہ مثلیت نہ ہوتی تو کسی کو ہدایت نہ ہوتی اور آپ سے منصبِ رسالت کا حق ادا نہ ہوتا، کیوں کہ بدون اس پردے اور غلافِ مثلیت کے حضرات صحابہ رضوانُ اﷲ علیہم اجمعین نورِ محمدی صلی اﷲ علیہ وسلّم کی تاب نہ لاسکتے۔ جب فرشتوں کے نور میں حق تعالیٰ نے اس قدر سَوْرت اور قوت رکھی ہے کہ اصلی حالت میں