براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ایک تفصیلی نظر اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس منکرِ قیامت کو حق تعالیٰ شانہٗ نے جو یہ جواب دیا ہے کہ کیا انسان کو یہ نہیں معلوم کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا ہے، اس استدلال میں کس قدر علمِ عظیم ہے۔ میاں نے اسی مختصرسی آیت میں علم کا سمندر سمودیا ہے یعنی حق تعالیٰ شانہٗ نے اس آیت سے یہ بتادیا کہ اے نادان! تو قیامت کا انکار اس لیے کرتا ہے کہ مرنے کے بعد جب یہ ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو خدا ان کو دوبارہ کیسے زندہ کرے گا؟ تو نے اپنی قوت پر میری قدرت کو قیاس کیا!تیری قوت بے شک اس امر سے عاجز ہے لیکن چراغِ مردہ کا مقابلہ تونے شمعِ آفتاب سے کیوں کیا؟ تو میری قدرت کو اپنی قدرت پر کیوں کر قیاس کرتا ہے؟ پہلی پیدایش میں میری قدرت پر غور کرتا تو تجھے یہ استبعاد نہ ہوتا یعنی دوبارہ ان بوسیدہ ہڈیوں کا زندہ ہونا کچھ مشکل نہ معلوم ہوتا۔ پس اس آیت میں حق تعالیٰ شانہٗ نے انسان کو اس کی پہلی پیدایش کی طرف غور و فکر کرنے کے لیے متوجہ فرماکر اس سے حشرِ ثانی کا یعنی وقوعِ قیامت کا استبعاد اور خلجان رفع فرمادیا۔ اور اس غور و فکر کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ شانہٗ نے نطفے سے پیدا فرمایا اور نطفہ خون سے پیدا ہوتا ہے اور خون ان غذاؤں سے پیدا ہوتا ہے جو ماں باپ کے جسم میں بذریعۂ خورد و نوش داخل ہوتی رہتی ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ غذائیں مختلف مقامات سے ماں باپ تک پہنچتی ہیں۔ ہمارے مشاہدات اس امر پر شاہد ہیں کہ خشکی وتری کے مختلف راستوں سے ایک ملک کی غذائیں دوسرے ملک میں بھیجی جاتی ہیں،پھر یہ غذائیں جب کھیتوں میں نشوونما پاتی ہیں تو ان کی پرورش میں آفتاب اور ماہتاب کی عروجی و نزولی رفتار سے ان کی مختلف درجۂ حرارت و برودت کی کیفیات بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ نیز شرقی، غربی، شمالی، جنوبی مختلف السمت اور مختلف الکیفیت ہواؤں کے جھونکے بھی پودوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی طرح ان پودوں میں مختلف چشموں اور نہروں کا جو پانی گزرتا ہے اس کے اندر زمین کے مختلف معدنیات کے اثرات بھی شامل ہوجاتے ہیں چناں چہ جس حصۂ زمین میں مثلاً گندھک کی کوئی کان ہوتی ہے اس حصے پر