براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
تھے۔ سفیر کی بولی بادشاہ کی بولی سمجھی جاتی ہے۔ حضرت عارف فرماتے ہیں ؎ گر چہ قرآن از لبِ پیغمبر است ہر کہ گوید حق نگفت او کافر است ترجمہ: اگرچہ قرآن ہمیں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کی زبان سے پہنچا ہے لیکن جو شخص یہ کہہ دے کہ کلام حق تعالیٰ کا فرمایا ہوا نہیں ہے وہ کافر ہے۔انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ ارواح کو عالمِ ارواح میں جو اجمالی معرفت اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ؎ فرماکر حق تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی اس اجمال کی تربیت بواسطۂ رسول یا نائبِ رسول یعنی علمائے ربّانیین کرکے ارواح کو تفصیلی معرفت عطا فرمادی جائے۔ اسی طرح حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ؎ اور میں نے جن اور انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ مجھے پہچان لیں۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے لِیَعْبُدُوْنِ کی تفسیر لِیَعْرِفُوْنِ سے فرمائی ہے اور اسی تفسیر کو صاحبِ جلالین نے بھی لیا ہے۔ اس ارادے کے بعد حق تعالیٰ نے مخلوقات کا سلسلہ شروع فرمایا ۔ پہلے جب زمین و آسمان کچھ نہ تھا تو حق تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ وَ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ ؎ اس کے بعد چھ دن میں حق تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو پیدا فرمایا۔ایک شبہ اور اس کا حل یہاں پر اہلِ علم کو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ حق تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتے ہیں تو کُنْ فرمادیتے ہیں یعنی ہوجا وہ کام ہوجاتا ہے۔ کُنْ فَیَکُوْنُ میں فاء تعقیب کے لیے ہے جس سے ارادۂ الٰہی کے بعد ترتّبِ مراد میں تاخیر کسی درجے میں بھی ثابت نہیں ------------------------------