براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
تمام انسانوں کے طبائع وامزجۂ مختلفہ کے ساتھ یکساں طور پر موافق ہو کسی مخلوق کے لیے عقلاً ممکن ہی نہیں ہے۔ خواہ مخلوق انفرادی طور پر قانون سازی کرے یا اجتماعی طور پر مجموعہ مخلوق کا مخلوق ہی ہوگا۔دلیلِ ثالث تیسری دلیل یہ ہے کہ ہر انسان روحانی مریض ہے۔ جیسا کہ عنوانِ ثانی میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے اندر مادّۂ غضب و شہوت، بخل و حسد، بغض و کینہ رکھا گیا ہے اور یہ رذائل در اصل حمامِ تقویٰ کے لیے ایندھن دیے گئے ہیں۔ ان ہی رذائل کی تہذیب و اصلاح اور اِمالے کے لیے انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے جاتے ہیں اور ان کے بعد ان کے سچے نائبین سے کام لیا جاتا ہے۔ اصلاح کی حقیقت ان رذائل کا جڑ سے استیصال وقلع قمع نہیں ہے۔ جو مصلح اپنے طالب میں استیصالِ رذائل کی کوشش کرے وہ جاہل فقیر ہے،وہ حق تعالیٰ کی حکمت کو فوت کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ رذائل بالکل بے کار تھے تو حق تعالیٰ ان کو پیدا ہی کیوں فرماتے۔ اور استیصال اسی شئے کا کیا جاتا ہے جو بے کار ہو۔ اور جو شئے من وجہٍ مضر اور من وجہٍ مفید ہو اس شئے سے ضرر کے رُخ کا مفید پہلو کی طرف اِمالہ کردیا جائے گا۔ ہمارے حضرت مرشد تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ازالہ رذائل کا ناممکن ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر تم سنو کسی پہاڑ کے متعلق کہ اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو تصدیق کرلو لیکن اگر سنو کہ کوئی شخص اپنی جبلّت سے ہٹ گیا تو ہرگز تصدیق مت کرو۔ حضرت مرشدی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ دو لفظی ہم قافیہ من جملہ کلیاتِ اشرفیہ کے ہے، ازالہ و امالہ۔ فرمایا کرتے تھے کہ رذائل کا صرف امالہ مطلوب ہے،ازالے کی فکر کرنا جہل ہے۔ اگر کسی شخص سے غصہ بالکل زائل ہوجائے یا شہوت بالکل زائل ہوجائے تو یہ شخص نامراد ہوجائے گا، ایسا شخص نہ کفار سے جہاد کرسکتا ہے نہ اپنے نفس سے جہاد کرسکتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے : اَلْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہٗ؎ مجاہد وہ ہے جو نفس کی خواہشات سے اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے لیے جہاد کرے۔ ------------------------------