براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
ایک قیدی جو خود شکار کردگی میں ہو وہ دوسرے قیدی شخص کو کب خلاصی دے سکتا ہے ؎ جز مگر نادر یکے فردانئے تن بزنداں روحِ او کیوانئے مگر وہ نادر اور مقبول بندہ جس کا تن تو اس چاہِ دنیا میں چلتا پھرتا ہو لیکن اس کی روح کیوانی ہو یعنی حق تعالیٰ کے تعلّقِ خاص کی برکت سے اس بندۂ مقبول کی روح مرتبۂ روح میں اس چاہِ دنیا سے رُخ پھیرے ہوئے ہروقت عالمِ آخرت کی طرف پرواز رکھتی ہو۔روحانی ارتقاء اور اس کا درجۂ کمال روح کی تربیت اور اس کا درجۂ کمال یہی ہے کہ اس کی ہر نقل و حرکت مرضیٔ الٰہی کے مطابق ہونے لگے اور حق تعالیٰ ہی کی یاد سے اس کو چین اور انس ہو اور نفس کے تمام بُرے تقاضوں پر اس طرح سے غالب اور حاکم ہوجاوے کہ کسی وقت خشم اور شہوت کا غلبہ اس کو استقامت سے نہ ہٹاسکے اور حق تعالیٰ کے ساتھ ایسا قوی رابطہ قائم ہوجائے کہ دنیا کی کوئی طاقت خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی اس کو توحید کے خلاف قولاً یا عملاً اپنی جگہ سے نہ ہلاسکے۔ گردن پر خواہ شمشیرِ ہندی ہو یا قدموں پر سونے چاندی کا ڈھیر ہو مگر وہ خوف اور حرص سے مافوق ہوکر کلمۂ حق پر جبلِ استقامت ہو۔ اپنے نفس کو معاصی سے پرہیز کا اور طاعات کا اس قدر خوگر بنائے کہ دین پر عمل اس کی طبیعتِ ثانیہ بن جائے حتّٰی کہ جب دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آجائے تو یہ تربیت یافتہ تین خطابات (۱)نفسِ مطمئنہ (۲)نفسِ راضیہ (۳)نفسِ مرضیّہ کے القاب سے مشرف ہوکر فوزِ عظیم کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف واپس ہوجائے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾؎ ------------------------------