براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ خَطَّاءٌ وَّخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ؎ ترجمہ:اے لوگو! تم میں سے ہر ایک خطا کار ہے اور بہتر خطا کاروہ ہے جو اپنی خطاؤں سے توبہ کرنے والا ہے۔ اس حدیث میں کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ فرما کر بتا دیا کہ اُمت کا ہر شخص خطا کار ہے۔ پس جب عقلاً و نقلاً یہ بات ہوچکی ہے کہ ہر انسان کے اندر کم و بیش اخلاقِ رذیلہ ضرور ہوتے ہیں تو یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ ہر انسان نفسانی مریض ہے۔ اب اس میں ایک مقدمہ اور ملا لیا جائے۔ رَاْیُ الْعَلِیْلِ عَلِیْلٌ بیمار کی رائے بیمار ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ طبیب جب خود بیمار ہوتا ہے تو دوسرے طبیب سے علاج کراتا ہے۔ اب مقدماتِ مذکورہ بالا کے پیشِ نظر یہ نتیجہ ثابت ہوا کہ کوئی انسان مریض ہونے کی حیثیت سے نہ تو اپنی صحتِ اخلاق کے متعلق قانون سازی کا حق رکھتا ہے اور نہ دوسروں کے لیے، اور یہ بیمار رائے بجائے مفید ہونے کے صدہا فتنوں اورمضرتوں کا سبب بن جاتی ہے۔ جیسا کہ روز مرہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔دلیلِ رابع چوتھی دلیل یہ ہے کہ انسان کو نہ اپنے مستقبل کا علم ہے اور نہ دوسروں کے مستقبل کا، اور قانون سازی کے لیے ماضی و حال و مستقبل کا علم ہونا عقلاًضروری ہے پس ایسا اجتماعی قانون جو تمام آنے والے حوادث اور نئے نئے حالات و انقلابات کے تمام مصالح کو اپنے اندر ملحوظ رکھتا ہو،کسی مخلوق کے لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ قیامت تک رونما ہو نے والے حالات کا علم ہونا تو وہ خالقِ کا ئنات ہی کو ہو تا ہے۔ اور اگر خالق کو بھی آیندہ کا علم نہ ہو تو و ہ خالق ہی نہیں جس کے لیے جہل ثابت ہو۔ انسان کا تو حال یہ ہے کہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر ایک ارادہ یا کوئی رائے قائم کرتا ہے، ذرا دیر میں ایسے حالات ناسازگار سے اسے دو چار ہونا پڑتا ہے کہ اب اسی رائے میں خطرناک پہلو کو مفید پہلو پر غالب دیکھتا ہے۔ بالآخریہ انسان اپنے مصمّم ارادےکو اور ------------------------------