براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا تعلق مع اﷲ اور شرطِ منصب وَاصْبِرْ نَفْسَکَ میں جو لفظِ صبر ہے اس سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی بڑی رفیع شان ظاہر فرمائی گئی ہے۔ یعنی غلبۂ تعلق مع اﷲ کے سبب آپ پر مشغولیِ خلق طبعاً شاق تھی مگر امتثالِ امرِ الٰہی کے لیے آپ بہ جبرِ نفس حضرات صحابہ رضوانُ اﷲ علیہم اجمعین کی تربیت کے لیے مجالست فرماتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی نیابتِ صادقہ حق تعالیٰ اپنے جن مقبول بندوں کو عطا فرماتے ہیں ان کو اسی مذاقِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلّم کے فیض سے مقامِ تبتل عطا فرماتے ہیں، اور ایسے ہی حضرات منصبِ اصلاح کے اصلی اہل ہوتے ہیں۔ ہمارے حضرت مرشدی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا مذاق بھی تبتل کا تھا۔ طبعاً مشغولی مع الخلق حضرت رحمۃ اﷲ علیہ پر شاق تھی۔ اور اولیاء اﷲ کا یہ تبتل دراصل حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم ہی کے تبتل کا پرتو ہوتا ہے۔ اس میں بات یہ ہے کہ جب تک شیخ کے اندر نسبتِ متعدّیہ کی شان نہ ہو اس وقت تک وہ دوسروں کے اندر تعلق مع اﷲ کی روح نہیں پھونک سکتا۔ اور نسبت میں پختگی اور تعدیہ کی شان اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب روح کو تبتلِ تام کا مذاق نصیب ہوجائے۔ ہمارے خواجہ صاحب نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کی شان میں خوب فرمایا ہے ؎ جس قلب کی آہوں نے دل پھونک دیے لاکھوں اس قلب میں یا اﷲ کیا آگ بھری ہوگی حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ کے دہد زندانئے در اقتناص مردِ زندانی دیگر را اخلاص جو خود علائقِ دنیویہ سے انقطاعِ تام اپنی روح میں راسخ نہیں کرسکا وہ دوسروں کو کب ان علائق سے چھڑا سکتا ہے۔ جس کی روح خود زندانِ علائقِ دنیویہ میں محبوس ہے اس کے اندر کب اتنی قوت ہوسکتی ہے کہ وہ دوسرے قیدی کو آزاد کراسکے ؎