براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ہوسکتی۔ اگر کسی قدر تاخیر کا وقوع ہوتا تو فَیَکُوْنُ نہ فرماتے۔ بجائے فاء لفظِ ثُمَّ ہوتا کیوں کہثُمَّتاخیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس شبہ کا جواب میرے دل میں حق تعالیٰ نے یہ وارد فرمایا ہے کہ زمین و آسمان بنے تو چھ دن میں لیکن جو جزء آسمان یا زمین کا جس وقت علمِ الٰہی میں بننا تجویز ہوتا صرف اسی حصّےکے لیے اس وقت کُنْ ارشاد ہوتا ، یہ تاخیر چھ دن کی جو ہوئی تو امر کُنْ کے فرمانے میں تاخیر کے سبب ہوئی۔ ایسانہیں ہوا کہ امر کُنْ کے فرمانے کے بعد ترتّبِ مراد میں تاخیر ہوئی ہو۔ جس قدر جس حصّےکو بننے کا حکم ہوتا تھا کہ تو ہوجا اسی وقت اتنا حصہ پیدا ہوجاتا تھا۔دوسرا شبہ اور اس کا حل اب یہاں دوسرا شبہ یہ ہوسکتا ہے کہ جب سامنے کوئی مخاطب خارج میں موجود نہ تھا تو کون اس کُنْ کا مخاطب ہوتا تھا؟ اﷲ تعالیٰ کس سے فرماتے تھے کہ تو ہوجا؟ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ کُنْ کا مخاطب علمِ الٰہی میں موجود ہوتا تھا۔ حق تعالیٰ اپنے موجود فی العلم القدیم سے ارشاد فرماتے تھے کہ اب خارج میں موجود ہوجا، پس حکمِ الٰہی سے وہ موجودِ علمی موجود ِخارجی ہوجاتا تھا۔ یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب حق تعالیٰ آنِ واحد میں زمین و آسمان کی تخلیق پر قادر تھے تو چھ دن میں کیوں پیدا فرمایا تو اس اشکال کا حقیقی جواب یہ ہے کہ رموزِ سلطنتِ خویش خسرواں د ا نند ؎ اکنوں کرا دماغ کہ پرسد ز باغباں بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد یعنی ہمارا حق کیا ہے کہ ہم باغباں سے پوچھیں کہ بلبل نے کیا کہا اور گل نے کیا سنا اور صبا نے کیا کیا۔ پس حق تعالیٰ کی حکمتوں کا ہماری قلیل المتاع عقل کیوں کر احاطہ کرسکتی ہے۔ لیکن من جملہ اور حکمتوں کے ایک حکمت ظاہر ہے کہ اس تدریج میں بندوں کے لیے عملی تعلیم ہے یعنی باوجود قدرتِ کاملہ کے تدریج اختیار فرماکر ہمیں تعجیل سے بچنے کی تعلیم فرمادی۔