براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
نہیں پایا جاتا ہے۔ اور مشاہدات کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہی معنیٰ ہیں حق تعالیٰ کے قول اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ کا۔بطلانِ شقِّ ثانی دوسری صورت یہ ہے کہ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَیعنی خود بخود تو نہیں پیدا ہوئے مگر یہ خود ہی اپنی ذات کے خالق ہیں۔ اس صورت کا باطل ہونا بھی ظاہر ہے کہ ایک ہی شئے مخلوق بھی ہو اور وہی اپنی ذات کی خالق بھی ہو ایک ہی شئے معلول بھی ہو اور وہی شئے اسی جہت سے اپنی علت بھی ہو اس طور پر شئے کا اپنے نفس پر تقدم لازم آتا ہے جو عقلاً محال ہے، پس پیدا کرنے والی ذات کا وجود پیدا کی جانے والی ذات سے پہلے ہونا عقلاً ضروری ہے۔بطلانِ شقِّ ثالث تیسری صورت یہ ہے کہ یہ منکرینِ توحید خالق کے وجود کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے تفرّد یعنی ایک ہونے کے قائل نہیں ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی خالقیت میں شریک سمجھتےہیں۔اس کا باطل ہونا بھی ظاہر ہے اس طور پر کہ اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کیا ان منکرینِ توحید نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے۔ اسی سوال میں ان کا جواب ہے، کیوں کہ جواب نفی میں ہوگا۔ نیز اگر بفرضِ محال دو خالق یا تین خالق تسلیم کرلیے جائیں تو پھر سوال ہوگا کہ ان خالقوں میں سے کوئی عاجز بھی ہوگا یا سب کے سب قادرِ مطلق ہوں گے، اگر کسی کا عاجز ہونا تسلیم کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ کوئی عاجز خدا نہیں ہوسکتا، اور اگر سب کو قادرِ مطلق مانتے ہیں تو اگر ایک خدا نے مثلاً زید کو پیدا کرنا چاہا تو دوسرا خدا اس کے خلاف کا ارادہ کرسکتا ہے یا نہیں، اگر نہیں کرسکتا تو عاجز ہونا لازم آتا ہے اور اگر کرسکتا ہے تو ایک خدا کے ارادے سے زید کا وجود لازم آتا ہے، اور دوسرے خدا کے ارادےسے زید کا عدمِ وجود لازم ہے اور اجتماعِ ضدّین عقلاً محال ہے اور جس چیز کے فرض سے محال لازم آتا ہے اس کا وجود عقلاً محال ہوتا ہے پس عقلاً خدا کا ایک ہونا ضروری ہے اسی استدلال کو حق تعالیٰ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ؎ اگر آسمان ------------------------------