براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
قیامت کا دن اس لیے مقرر ہوا ہے تاکہ اپنے محسن اور منعم کا دیدار ہو ورنہ انسان کی یہ فطری خواہش کیسے اور کب پوری ہوگی؟ تو ارشاد فرماتے ہیں وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ فرماتے ہیں کہ ابھی دیکھا بھی نہیں ہے، دیکھنے والے ہیں، لیکن دیکھنے سے پہلے تازگی شروع ہوگئی۔ اسی لیے ناضرہ کو مقدم فرمایا ہے۔ عجیب علمی لطافت ہے۔تقریرِاثباتِ قیامت بعنوانِ خامس پانچواں عنوان تقریرِ اثباتِ قیامت کا یہ ہے کہ قیامت تک جتنے انسانوں کو پیدا کرنے کا ارادہ علمِ الٰہی میں تجویز ہوا اتنے انسانوں کی پیدایش کے ذرّات کو حق تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت میں بطورِ امانت ودیعت فرمادیا تھا (جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے کہ بروزِ میثاق حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام ارواح کو نکال کر ان سے عہد لیا گیا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟) پھر یہ اجمالی ذرّات مع اپنی کمیت اور کیفیت اصلابِ آباء اور بطونِ اُمّہات سے یعنی باپوں کی پشتوں اور ماؤں کی شکموں سے بحکمِ الٰہی بحفاظت اسی امانت کے ساتھ منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں حتّٰی کہ ماں باپ کا لب و لہجہ اور آنکھیں، طرزِ گفتار اور طرفِ رفتار سبھی کچھ اولاد میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اب غور یہ کرنا ہے کہ ہر انسان کا وہ ذرۂ آفرینش جو حضرت آدم علیہ السلام کی پشتِ مبارک میں ودیعت فرمایا گیا تھا اتنے اصلاب اور بطون میں منتقل ہونے کے باوجود کس ذاتِ پاک کی قدرتِ قاہرہ کی نگرانی میں تغیر اور تبدل سے محفوظ رہتا ہے۔ علمِ الٰہی میں جس انسان کا جو ذرۂ آفرینش متعیّن ہوکر حضرت آدم علیہ السلام کی پشتِ مبارک میں رکھا گیا تھا کیا مجال کہ اس ذرّۂ تولید میں کسی دوسرے انسان کا ذرّۂ تولید داخل ہوجاوےیا اس ذرے سے کوئی مقدار نکل کر دوسرے انسان کی خمیر میں داخل ہوجاوے۔ حالاں کہ اس قدر اصلاب اور بطون میں نسلاً بعد نسلٍ ان ذرّات کے منتقل ہونے میں اس امرِ مذکور کا وقوع عقلاً بعید نہ تھا۔ پس اگر ہر انسان اپنے ذرۂ آفرینش کی حفاظت کو اپنے والدین سے لے کر حضرت آدم علیہ السلام