براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
پہلے بھی تو ایک بڑے حصۂ عمر تک تم میں رہ چکا ہوں یعنی چالیس برس تک میری زندگی تم لوگوں میں گزری ہے لیکن نزولِ وحی سے پہلے میری زبان سے تم لوگوں نے ایسی بولی کبھی نہیں سنی تھی۔ سو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا، جو اﷲ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلاوے، یقیناً ایسے مجرموں کو اصلاً فلاح نہ ہوگی۔ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی اس مقام کی یوں تفسیر فرماتے ہیں کہ یعنی اگر میں بناتا ہوں تو مجھ سا ظالم کوئی نہیں اور جو میں سچا ہوں تو جھٹلانے والوں پر یہی بات ہے ۔ (موضح القرآن) یوں تو اﷲ تعالیٰ کی سنّتِ جاریہ حضرت آدم علیہ السلام سے چلی آرہی تھی کہ پیغمبر کا استاد غیر پیغمبر نہیں ہوا،یا تو براہِ راست حق تعالیٰ نے وحی کے ذریعے تعلیم فرمائی یا نبی کا استاد نبی کو بنادیا۔ مثلاً حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے بھی ہیں شاگرد بھی، حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے بھی ہیں شاگرد بھی، حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حقیقی بھائی بھی تھے اور شاگرد بھی تھے۔ اب کوئی شبہ بھی کرسکتا ہے کہ پھر حضرت خضر علیہ السلام کی شاگردی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیوں کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کی شاگردی کا حکم نہیں ہوا تھا بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مصلحت کے لیے از خود حضرت خضر علیہ السلام کی مصاحبت کااپنے اوپر التزام کرلیا تھا، اور درحقیقت اس خاص امر میں اﷲ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو احتیاط فی الکلام کی تعلیم ہوجاوے کیوں کہ انہوں نے بنی اسرائیل میں ایک بار وعظ فرمایا تھا تو کسی نے پوچھا کہ اس وقت سب سے بڑا عالم کون شخص ہے؟آپ نے فرمایا کہ میں ۔ مطلب یہ تھا کہ ان علوم میں کہ جن کو قرب الی اﷲ کی تحصیل میں دخل ہے، میرے برابر کوئی نہیں، لیکن چوں کہ ظاہراً لفظ مطلق تھا، اس لیے حق تعالیٰ نے تعلیماً ارشاد فرمایا کہ ہمارا بندہ مجمع البحرین میں تم سے بھی زیادہ علم رکھتا ہے، مطلب یہ تھا کہ بعض علوم میں وہ تم سے بھی