براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اے میرے رب! کافروں میں سے زمین پر ایک باشندہ بھی مت چھوڑ۔ تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک تبلیغ کے سلسلے میں قوم کی طرف سے مصائب کا تحمل فرمایا ہے لیکن جب وحیِ الٰہی سے معلوم ہوگیا کہ اب یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے اس وقت آپ نے یہ دعا فرمائی ہے،چناں چہ اس دعا کے بعد ہی عرض کرتے ہیں کہ: اِنَّکَ اِنۡ تَذَرۡہُمۡ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا؎ اے اﷲ! اگر آپ ان کافروں کو روئے زمین پر رہنے دیں گے تو یہ لوگ آپ کے بندوں کو گمراہ ہی کریں گے اور ان کے محض فاجر اور کافر ہی اولاد پیدا ہوگی۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی شانِ رحمت کو حق تعالیٰ سورۂ احزاب میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؎ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلّم مؤمنین کے ساتھ خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ تعلّق رکھتے ہیں۔تربیتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریح حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم نے قانونِ الٰہی پر عملی مشق جس اسلوب سے فرمائی ہے اس تربیتِ نبوی صلی اﷲعلیہ وسلّم کی تشریح حق تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں اس طور پر ارشاد فرمائی ہے: لَقَدۡ مَنَّ اللہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ؎ ------------------------------