براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
صدق الگ الگ ہے،آنکھوں کا صدق یہ ہے کہ وہ بُری جگہ نگاہ نہ اُٹھائے۔ہر عضو کا اپنے پروردگار کے مرضی کے مطابق حرکت و سکون اختیار کرنا اس عضو کا صدق ہے اور صدیقین بھی ان ہی صادقین میں ہوتے ہیں مگر یہ کم ہوتے ہیں۔ صدیقیت تو روحانیت کا نام ہے، ایک خاص تعلق مع اللہ کا نام ہے ۔ہر صادق صدیق نہیں ہوتا ہے ؎ نہ ہر دیدہ را دیدہ بانی دہند نہ ہر سینہ را راز دانی دہند برائے سرانجامِ کارِ صواب یکے از ہزاراں شود انتخاب چو ں کہ صدیقیت ایک باطنی نعمت کا نام ہے اور اس کا ادراک عامۃ الناس کے لیے مشکل ہے اور تقویٰ کی ضرورت مقتضی عموم کو تھی کیوں کہ ہر خاص و عام تقویٰ کا محتاج ہے پس حق تعالیٰ نے صادقین ارشاد فرمایا تاکہ بندوں کو زیادہ کاوش اور محنتِ شاقّہ ان کی تلاش میں نہ ہو، صادقین کو ان کے صدق فی القول اور صدق فی العمل سے بآسانی پہچانا جا سکتا ہے یعنی جن بندوں کے اعمال و اقوال اور اخلاق مطابق شریعت کے ہوں، وہ سب صادقین ہیں ان کی صحبت اختیار کی جاوے اور ان ہی صادقین میں صدیقین بھی کبھی نہ کبھی مل جا ویں گے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہر بُری خوا ہش کا امالہ ہو جانے سے وہ خواہش محمود ہو جاتی ہے۔تکبّر کا اِمالہ تکبر کس درجہ مذموم ہے لیکن اس کا بھی امالہ ہوجانے سے وہ محمود ہوجاتا ہے۔ تکبر کا امالہ یہ ہے کہ پہلے اپنے نفس کو اپنے بھائیوں کے درمیان بڑا سمجھتا تھا اور اکڑ کر چلتا تھا۔ اب اصلاح کے بعد اپنے کو سب سے گناہ گار اور حقیر سمجھتا ہے لیکن موقعِ جہاد میں کافروں کے سامنے اکڑ کر اﷲ کی رضا کے لیے تکبر کی چال دکھاتا ہے تاکہ کافروں پر رُعب پڑے۔ اب اگر اس کے اندر تکبّر کا مادہ ہی نہ ہوتا تو یہ کیسے اکڑ کر کافروں کو مرعوب کرسکتا۔ چناں چہ حدیثوں میں یہ روایت موجود ہے کہ جب مکّے کے مہاجرین مدینہ میں بیماری سے کمزور ہوگئے تو کفار ان کو کمزور اور حقیر سمجھنے لگے۔ اس