براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اے بروں از وہم وقال و قیل من خاک بر فرق من و تمثیل من دنیا میں اس کا مشا ہدہ موجود ہے کہ ایک انسان کسی انسان کی خدمت میں ایک عمر معتدبہٖ گزاردینے کے باوجود بھی کوئی کام ایسا کر گزرتا ہے کہ مخدوم کے مزاج کے بالکل خلاف ہوتا ہے، تو ایک بندہ اپنے ہی جیسے ایک انسان کی پوری عمرصحبت کے باوجوداس کی کماحقہٗ مزاج شناسی کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے تو جہاں اتحادِ جنسیت کا بھی گزر نہیں،جہاں بندے کے افکار و اذہان و قیاس اپنی پر وازسے قاصر ہیں،لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ءٌ؎جن کی شان ہو ان کی مرضیات اور نا مرضیات کا ادراک کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ بجز اس کے کہ وہ خود اپنے کرم سے پیغمبروں کے ذریعے ہمیں مطلع فرمادیں۔ اور ہماری اِسی عاجزی اور نقصانِ عقل وفہم کی وجہ سے ہمارے اوپر حق تعالیٰ شانہٗ نے اس کا بار بھی نہیں رکھا۔ اگر قانونِ ہدایت کی درخواست کا مضمون سورۂ فاتحہ میں خود ہی نازل نہ فرماتے تو ہمیں تو درخواست پیش کرنے کا بھی سلیقہ نہ تھا۔ ہم اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ جیسے کلمات کہاں سے لاتے۔ ہم سارے انسان اور جن مل کر بھی غور کرتے تب بھی ان کلماتِ حمدوثنا ء تک ہماری عقل رسانہ ہوتی۔ ہمیں تو خود اپنی خلقت کے اسرار کی خبر نہیں ہے تو خالق کے صفات کی معرفت کا دعویٰ کس منہ سے کر سکتے۔ پس معلوم ہوا کہ بندوں سے ایسے قانون کی تدوین جو حقوقِ عظمتِ ذات وصفات حق تعالیٰ شانہٗ کے شایانِ شان ہو، نا ممکن ہے۔دلیلِ سادس چھٹی دلیل یہ ہے کہ ہم جس کے مملوک اور بندے ہیں اسی کا قانون بھی ہونا چاہیے۔ دنیا میں کہیں اس کی نظیر موجود نہیں کہ سلطنت تو کسی اور کی ہے اور قانون کسی اور کا چل رہا ہو۔ جس کی رعایا اسی کا قانون۔ پس اب اس کو عقل سے سوچنا ہے کہ در حقیقت ہم کس کے مملوک ہیں،یہ آسمان اور زمین کس کے ہیں ؎ ------------------------------