براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
کوئی انسان اس نور کا تحمل نہیں کرسکتا جیسا کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر میں کسی فرشتے کو رسول بناکر بھیجتا تو تمہارا کام ہی تمام ہوجاتا یعنی تم سب کے سب ہلاک ہوجاتے وَ لَوۡ اَنۡزَلۡنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الۡاَمۡرُ ؎ پس نورِ محمدی صلی اﷲ علیہ وسلّم کی تابش کا تحمل تو کسی سے کیا ہوتا۔ اس لیے حق تعالیٰ نے انوارِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلّم کو غلافِ بشریت میں مبعوث فرمایا۔ اور میں اس مثلیت پر ایک مثال یہ بھی دیا کرتا ہوں کہ ایک درجن گلاس رکھے ہوں اور ان میں ایک گلاس مٹی کا ہو اور ایک پتھر کا ہو،ایک چاندی کا ہو،ایک سونے کا ہو،ایک ہیرے کاہو اور ایک گلاس ایسا ہو جو ایسے انمول جواہرات سے تیار کیا گیا ہو جس کی قیمت اور جس کا مثل دونوں جہاں میں نہ ہو تو بظاہر مثلیت میں ہر گلاس کو گلاس کہہ دیں گے اور یہ انمول گلاس بھی دوسرے معمولی گلاسوں سے کہہ سکتا ہے کہ اَنَا مِثْلُکُمْ میں بھی تمہاری طرح نفسِ گلاس ہونے میں تمہارا ہم مثل ہوں لیکن ہم ایسے مثل ہیں کہ تمہاری قیمت صرف چند پیسے ہوں گے اور ہماری قیمت دونوں جہاں میں کوئی ادا نہیں کرسکتا۔ یُّوۡحٰۤی اِلَیَّ نے اس مثلیت کو اس قدر رِفعت بخشی ہے کہ اس رِفعت کا تفصیلی علم خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کو بھی نہ تھا۔ اﷲ تعالیٰ ہی کو اپنے رسول کی قیمت اور رِفعت کا تفصیلی علم ہے۔عظمتِ اُلوہیت سے عظمتِ رسالت پر استدلال بات یہ ہے کہ ہر سفیر کی عظمت اور رِفعت شان اس ملک کے بادشاہ کی عظمت کے لحاظ سے ہوتی ہے، پس حق تعالیٰ کی عظمت خود عظمتِ رسالت پر دلالت ہے۔ شہنشاہ کی عظمت اس کے رسول کو معظّم کردیتی ہے، اس عنوان کو حق تعالیٰ نے ایک جگہ اختیار فرمایا ہے۔ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللہِ فرماتے ہیں کہ ہمارے رسول کی شان کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم یہ جان لو کہ یہ کس ذاتِ پاک کے رسول ہیں۔ میری ------------------------------