براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
کبریائی و جلالتِ شان سے میرے رسول کی جلالتِ شان کو سمجھ لو۔ تین لفظ میں عجیب نظم ہے۔ محمد۔ رسول۔ اﷲ یہ مختصر سا ٹکڑا حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی تمام تعریفوں کو جامع بھی ہے اور مانع بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اﷲ کے رسول ہیں تو تمام صفاتِ رسالت سے آراستہ ہونا یقینی ہے۔ پس اس جامع اور مانع تعریف کو اس محدود ٹکڑے کے اندر حق تعالیٰ نے سمودیا۔تفصیلِ شانِ رسالت آئینۂ رسالت میں اب اس آیت کے بعد حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اس اجمالی تعریف کے بعد اگر میرے رسول کی تفصیلی شان دیکھنی ہو تو میرے رسول کو آئینۂ رِسالت میں دیکھو یعنی حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم کو دیکھو۔ شاگردوں کی عظمتِ شان سے استادوں کی عظمتِ شان معلوم کرلو: وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ دیکھویہ جو ہمارے رسولِ پاک کی صحبت میں تربیت پارہے ہیں، یہ پہلے تو کفر اور شرک کو محبوب سمجھتے تھے، اور اب کفر اور شرک سے کیسی عداوت اور بغض ہے کہ جان دینے اور لینے کے لیے تیار ہیں، اور پہلے آپس میں کس درجہ عداوت و بغض کی آگ نسلًا بعد نسلٍ چلتی رہتی تھی اور ان کاکینہ، سخت دلی اور انتقام پر صفحاتِ تاریخ بھرے ہوئے ہیں، اب میرے رسولِ پاک کی معیت نے ان کو آپس میں رحم دل بنادیا۔ یہ تو بندوں کے ساتھ ان کا معاملہ ہے۔ اب اپنے اﷲ کے ساتھ ان کا معاملہ دیکھو تَرٰہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا ؎ مراد رکوع و سجدے سے نماز ہے مگر نماز نہیں فرمایا،یہ بھی بلاغت ہے یعنی ہر رُکن میں اپنے اﷲ سے ایک مستقل مشغولی ہے۔ رکوع میں ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اب سر ہی نہ اٹھے گا، دیکھنے والا سمجھے کہ شاید یہی ایک ان کا کام ہے، سجدے میں ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سجدے ہی میں رہیں گے ؎ ------------------------------