براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اور دستور سے اعراض اور روگردانی کر کے عقل کے دستور کی پابندی کر رکھی ہے۔ یہ امر تو تمام عقلائے زمان کو تسلیم ہے کہ امن اور عافیت کا مدار قانون پر پابندی ہے۔ جب انسان کی فطرت خیروشر دونوں کا مجموعہ ہے تو ظاہر ہے کہ شر کے تقاضوں کو روکنے کے لیے اگرقوانین مرتّب نہ ہوں اور ان کی عدمِ پابندی پر سزائیں نافذ نہ ہوں تو عالم میں امن کا قیام ناممکن ہے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ قانون سازی کا حق کس کو ہے؟ اس زمانے میں الحاد و بددینی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے نام کے عقلائے زمانہ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ قانون سازی کا حق درحقیقت کس کو ہے؟ یہ مسئلہ باوجود اپنی بداہت و وضاحت کے نہ سمجھ میں آنے کی وجہ شدید نفس پرستی ہے ؎ چوں غرض آمد ہنر پوشیدہ شُد صد حجاب از دل بسوئے دیدہ شُد یہ کتنا کھلا ہوا اور واضح مسئلہ ہے کہ جس کا ملک ہو اسی کا قا نون ہو۔ خدا کا ملک ہے، اسی کا قانون اصلی قانون ہے۔ اگر کوئی دہریہ کہے کہ ہم تو خدا کو نہیں مانتے تو ایسے مخاطب سے ہمیں فروعات میں بحث کرنے کا حق نہیں۔ ہمارے مرشد حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ غیر مسلم سے فروعات میں بحث کرنا وقت ضایع کرنا ہے، اس سے اصول میں گفتگو کرنا چاہیے یعنی پہلے خدا تعالیٰ کے وجود پر پھر رسول صلی اﷲ علیہ وسلّم کی رسالت پر گفتگو کرنی چاہیے، کیوں کہ جب اﷲ کو اﷲ اور رسول کو رسول تسلیم کرلیا تو اب اس کو جزئیات میں انکار کا راستہ نہیں ملے گا۔ اُصولِ اسلام کو دلائل سے سمجھانا علماء کے ذمے فرض ہے پھر جزئیات کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ مسئلہ قرآن سے ثابت ہے، یہ حدیث سے ثابت ہے۔ملحدین اور منکرینِ توحید سے قرآن کا طرزِ استدلال ملحد اورمنکر مخاطب سے ہم وہی طرز استدلال کا اختیار کریں جس کو حق تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں اختیار فرمایا ہے: