براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
یہاں کوئی کہہ سکتا ہے، بعض احکام آسمانی کتابوں کے جو پہلی اُمتوں کے لیے نازل ہوئے وہ بعد کو باقی نہ رہے۔ان احکام کے بجائے دوسرے احکام نازل فرمائے گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا نام تغیر و تبدل نہیں ہے بلکہ اس کانام نسخ ہے۔ مزاجِ مخاطبین کے تغیر و تبدل کے پیشِ نظر کسی حکم کو منسوخ کر کے موجودہ مزاجِ اُمت کے مناسب دوسرا قانون نافذ فرمانا عین اقتضائے حکمتِ کاملہ ہے۔ تغیّر و تبدل کا اطلاق اللہ کے کسی قانون پر عقلاًمحال ہے کیوں کہ تغیّر و تبدّل شان حادث کی ہے اور حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک قدیم ہے۔ دنیا میں کوئی بادشاہ اپنے قانون میں تغیّر و تبدّل کب کرتا ہے جب اس قانون کے اندر اس کو کسی ضرر کا علم ہوتا ہے اور اس ضرر کی اصلاح پر وہ قادر نہیں ہوتا،اس وقت وہ اس قانون کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ دنیا کے حکمرانوں کا قانون آئے دن جو تبدیل ہوتا رہتا ہے اس کی وجہ جہل ،عجز وغیرہ ہے۔ یعنی آیندہ ظاہر ہونے والے مضرّات سے لا علمی اور ان کی اصلاح وتدراک سے عاجزی ہے اورحق تعالیٰ کی ذات جہل اور عجز سے پاک ہے، پس عقلاًیہ بات ثابت ہو گئی کہ بجز حق تعالیٰ شانہٗ کے کسی مخلوق کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں۔ یعنی ایسے قانون کی تدوین جو تمام مضرّتوں سے پاک و صاف ہو بجز خدا تعالیٰ کے کسی مخلوق کو اس پر قدرت نہیں۔دلیلِ خامس پانچویں دلیل یہ ہے کہ انسان ایسے قانون کی تدوین سے جو تمام صفاتِ اُلوہیت کے شایانِ شان ہو مجبور اور عاجز ہے کیوں کہ حق تعالیٰ کے جملہ صفات غیر محدود ہیں اور بندوں کے اذہان اور عقول محدود ہیں اور ظاہر ہے کہ محدود ظرف میں غیر محدود کا احاطہ ناممکن ہے۔ اگر حق تعالیٰ ہمیں مطلع نہ فرماتے تو ہمیں ان کی صفات کی معرفت تو در کنار ان کے اسماء کی بھی خبر نہ ہوتی۔ ارشاد فرماتے ہیں کہ لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی اور اللہ تعالیٰ کے اوربھی اچھے اچھے نام ہیں جن کی تمہیں خبر بھی نہیں۔ وَلَنِعْمَ مَا قَالَ الْعَارِفُ الرُّوْمِیُّ ؎