براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
تصادم اور تعارض نہ رہا۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قلّت صفتِ علم کی ہے اور کثرت صفتِ خیر کی ہے اور علم اگرچہ قلیل ہو وہ بھی خیرِ کثیر ہے، اس صورت میں تصادم اور تعارض کا شبہ ہی نہیں ہوسکتا۔ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی آیت سے یہ بھی استدلال فرمایا ہے کہ اسرارِ غیرضروریہ کا تفحص و تجسس مذموم ہے جبکہ اس آیت کا مفہوم نہی عن السوال کہا جائے جیسا کہ ظاہر ہے۔ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا پر جج اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے ایک شعر بہت عمدہ فرمایا ہے ؎ مِنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا کو بھی دیکھو بعد اُوْتِیْتُمْ نہ مانو گے تو اک دن بھائیو کھاؤ گے جوتی تم علمِ الٰہی کے مقابلے میں بندوں کے رکیک اوہام اور لچر دلائل کی کوئی قیمت اور حیثیت نہیں ہے۔ نصوصِ قطعیہ کے بارے میں اہلِ باطل کا اپنی باطل تاویلات پر اپنے موقف کی بنیاد رکھنے اور ان کے مطمئن ہونے کی مثال ایسی ہے جیسا کہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی شریف میں ایک مکھی اور اس کے تخیلِ خام کی حکایت لکھی ہے۔مثنوی شریف کی ایک حکایت وہ قصہ یہ ہے کہ گدھے کے پیشاب میں ایک تنکا بہہ رہا تھا، اس پر ایک مکھی بیٹھی ہوئی مثل کشتی بان کے اپنا سر ہلاتی ہوئی کہہ رہی تھی کہ میں نے ایک مدت تک در یا میں کشتی بانی کا فن سیکھا ہے، اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ صاحبِ تاویلِ باطل چوں مگس وہم او بولِ خر و تصویرِ خس ترجمہ: صاحبِ تاویلِ باطل کی مثال اسی مکھی کی ہے جس کے وہم میں گدھے کا پیشاب دریا معلوم ہوتا ہے اور تنکا اسی پیشاب پر بہتا ہوا کشتی معلوم ہوتا ہے۔ آگے چل کر مولانا باطل پرستوں کی اصلاح فرماتے ہیں ؎