براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
جس وقت میں مزار پر حاضرہوا ہوں مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے سر پر گویا نسبت کا پہاڑ رکھ دیا گیا۔ دو ماہ تک اس درجہ غلبۂ استحضارِ حق تھا کہ میں آسمان کی طرف غلبۂ ادب کی وجہ سے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ بڑے صاحبِ فیض بزرگ ہیں۔ حضرت شاہ عبدالرزاق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ صرف پارۂ عم تک پڑھے تھے، لیکن بہت بڑے آدمی تھے۔ان کی نسبت اس قدر اونچی تھی کہ بدون وارد کے کلام نہیں فرماتے تھے۔ کھبردیت یعنی حق تعالیٰ خبردے رہے ہیں۔ اس کے بعد کلام فرماتے تھے۔ حضرت ملا نظام الدین فرنگی محلّی رحمۃ اﷲ علیہ جو درسِ نظامیہ کے بانی ہیں اور فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب کے وقت تقریباً پانچ سو علماء کے افسر تھے،وہ ان ہی بزرگ شاہ عبدالرزاق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت تھے۔ایک آیت کے متعلّق تفسیری لطائف حق تعالیٰ نے اس آیت میں یَسْعٰی کو یَخْشٰی سے مقدم فرمایا ہے یعنی اصل حالت غلبۂ محبت ہی کی مطلوب ہے۔ محبت سے اطاعت والہانہ ہوتی ہے اور وَہُوَ یَخْشٰی حال ہے اور حال بمنزلہ شرط کے ہوتا ہے پس یَسْعٰی کے بعد وَہُوَ یَخْشٰی فرماکر یہ بتادیا کہ محبّت کے ساتھ خشیت بھی ملی ہوئی ہو کیوں کہ نِری محبّت میں آدمی بے ادب اور گستاخ ہوجاتا ہے۔ ہمارے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ کی محبّت کو عظمت کے ساتھ جمع کرنا چاہیے۔ آیتِ مذکورہ میں رحمتِ الٰہیہ محبّتِ الٰہیہ کو چاہتی ہے اور عظمتِ الٰہیہ خشیتِ الٰہیہ کو چاہتی ہے۔ محبت کے ساتھ خشیت کی شرط لگاکر محبت کی تکمیل کردی گئی، یعنی محبتِ کاملہ وہی محبت ہے جو خشیت کے ساتھ مقرون ہو۔ جب محبت کے ساتھ خشیت مل جاتی ہے تب اس محبت کی خوشبو پھیل جاتی ہے جس طرح کباب بننے سے پہلے گوشت اور مسالہ پسا ہوا رکھا ہوتا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں پھیلتی اور جب آگ پر اس کو بھونتے ہیں تو پھر اس کی خوشبو کافر کو مسلمان کرتی ہے۔ اسی طرح اﷲ والوں کی محبّت کے انوار خشیت کے ساتھ مل کر سارے جہاں میں خوشبو پھیلادیتے ہیں۔ ہندی مثل ہے، ’’اس کے جرے تو کس نہ بسائے‘‘یعنی جو اس طرح جلتا ہے تو کیوں کر اس کی خوشبو نہ پھیلے۔