براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
توحید کی دلیل اور عقلی دلائل کی حقیقت انسان اگر اپنی اوّل پیدایش میں غور کرے تو دوبارہ پیدا ہونے کی دلیل خود اپنی پہلی پیدایش میں مشاہدہ کرے گا۔ اثباتِ توحید و وقوعِ قیامت کے لیے حق تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں متعدّد مقامات پر جو دلائل ارشاد فرمائے ہیں وہی ہمارے لیے کافی وافی ہیں۔ حق تعالیٰ کے دین کا کوئی وکیل نہیں بن سکتا، بلکہ اﷲ تعالیٰ ہی سب کے وکیل ہیں۔ خدائے تعالیٰ کے دین کی وکالت بندے کب کرسکتے ہیں۔ دین ایک شاہی محل ہے، اگر اس کی تعمیر میں چماروں کو بھی یہ حوصلہ پیدا ہو کہ ہم اپنی جھونپڑیوں کے سڑے سڑے بانس لگادیں تو کیا یہ حوصلہ سخت گستاخی پر محمول نہ ہوگا اور کیا بادشاہ کے نزدیک ان چماروں کے یہ ہدایا قابلِ قبول ہوں گے ؎ آرزو می خواہ لیک اندازہ خواہ می نتابد کوہ را یک برگ کاہ اسی مثالِ مذکور سے سمجھ لینا چاہیے کہ توحید، رسالت اورقیامت کو اﷲ اور رسول نے جن دلائل سے ثابت فرمایا ہے ان کے ہوتے ہوئے ہمیں ان ہی دلائل سے کام لینا چاہیے کیوں کہ ان اجزاء کا انتخاب شاہی انتخاب ہے اور شاہ کی طرف سے بذریعۂرسول ہم کو عطا ہوئے ہیں اور یہی دونوں دین کے صحیح تعمیری اجزاء ہوسکتے ہیں۔ ہم کیا ہیں اور ہما رامنہ کیا ہے کہ ہم خدا اور رسول کے ارشاد فرمودہ دلائل کے ہوتے ہوئے اپنی سڑی ہوئی اور پھسپھسی عقل کی ٹانگ لڑانے کی جسارت کریں۔ روشن آفتاب کے ہوتے ہوئے دھواں دیتے ہوئے چراغ کی انانیت اور اس کا وجود کیا وقعت رکھتا ہے۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ با حضورِ آفتابِ خوش مساغ رہنمائی جستن از شمع و چراغ بے گماں ترکِ ادب باشد ز ما کفرِ نعمت باشد و فعلِ ہوی