براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
بھی تو ہے جو بظاہر منافیٔ رحمت کے ہے تو اس ظاہری شبہ کا جواب یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے کفّار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ ہر کافر اور مشرک اپنے نفس کا ظالم ہے: وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ؎ اورانہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے۔ ایک مقدمہ تو یہ ہوا، دوسرا مقدمہ یہ ملائیے کہ اور ہر ظالم کو ظلم سے باز رکھنا عینِ رحمت ہے، خود اس ظالم کے حق میں بھی اور دوسروں کے حق میں بھی ۔پس یہ شدّت بھی جو کافروں کے ساتھ جہاد میں استعمال کی جاتی ہے عینِ رحمت ہے۔کبھی مہر بصورتِ قہر ہوتا ہے، اسی طرح کبھی قہر بصورتِ مہر ہوتا ہے ،پس شدّت علی الکفار درحقیقت مہر بصورتِ قہر ہے۔حضرت جبرئیل علیہ السلام سفیرِ محض تھے معلّم نہ تھے اَلرَّحۡمٰنُ ۙعَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَسے حق تعالیٰ نے اپنے رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلّم کی رفعتِ شان کے متعلق بندوں کو مطلع فرمادیا کہ اے لوگو! تم کو یہ شبہ تو نہیں ہوسکتا کہ کوئی انسان ہمارے نبی کا معلّم ہو کیوں کہ ہمارے رسول کو تم لوگوں نے ظہورِ نبوّت سے پہلے چالیسبرس تک دیکھا ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ یہ اَن پڑھ یعنی اُمّی رسول ہیں۔ لیکن حضرت جبرئیل علیہ السلام کے متعلق کسی کو شبہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے رسول کو تعلیم دی ہو۔ تو واضح ہوجائے کہ اَلرَّحۡمٰنُ ۙعَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ درحقیقت ہم نے اپنے رسولِ اُمّی کو تعلیم دی ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام بطور سفیر و قاصد کے ہیں۔ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ فرماکر اور بھی تاکید فرمادی کہ روح الامین یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن کو حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم تک لانے والے ہیں، معلّم نہیں ہیں۔ رہا یہ شبہ کہ سورۂ نجم میں عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی فرمایا گیا ہے یعنی ان کو ایک فرشتہ تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے تو اس آیت میں تعلیم کی نسبت فرشتے کی طرف کیوں فرمائی ہے۔ تو اس ظاہری شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ نسبت مجازاً کردی گئی ------------------------------