براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
فرق ہے۔ ہر شئے اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ جب باطل کا تقابل حق کے ساتھ ہوتا ہے اس وقت باطل کا بطلان اور لچرپن ظاہر ہوجائے گا۔حدِّ سرقہ مثال کے طور پر چوری کی سزا کو لے لیجیے۔اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو شخص چوری کرے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ حکمرانِ دنیاجیل خانہ میں ایک مدت ڈال دینے کو کافی سمجھتے ہیں۔ لیکن تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جیل خانے میں متعدّد چور آپس میں تبادلۂ خیالات کرکے اور بھی استاد ہو جاتے ہیں، چوری کے فن میں جو کچھ بھی کمی اور خامی ہوتی ہے اس کی تکمیل جیل خانہ میں ہوجاتی ہے۔چناں چہ دیکھا جاتا ہے کہ ہر چور جیل خانےسے نکلتے ہی پھر چوری کرنا شروع کر دیتا ہے پس قانون کا جو مقصد انسدادِ جرائم تھا وہ اس سزا سے حاصل نہ ہوا۔ باطل قانون سے باطل نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ اب حق تعالیٰ کے قانون کا ثمرہ مشاہدہ کیجیے: ۱) جس وقت چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس وقت خود اس مجرم کو قلب پر آیندہ اس فعل سے توبہ کرنے کا ایکقوی تقاضا تو مرتّب ہوتا ہی ہے دوسرے دیکھنے والوں کا دل بھی دہل جاتا ہے۔ اگر کسی کے دل میں کبھی چوری کا وسوسہ و خیال بھی گزرتا رہا ہوگا تو اس سزائے دردناک کو دیکھ کر اس کے دل سے یہ شیطانی خناس ہمیشہ کے لیے نکل جاتا ہے۔ ۲) دوسری بات یہ کہ جب مقطوع الیدیعنی کٹے ہوئے ہاتھ والا انسان کسی محفل میں داخل ہوتا ہے یا کسی راہ سے گزرتا ہے تو لوگ اس سے ہو شیار ہو جاتے ہیں کہ یہ انسان چور ہے،اس نے ایک بار چوری کی ہے اس سے بچنا چاہیے۔ اس کے بر عکس جیل خانے میں سزا یافتہ عام انسانوں میں گھل مل جاتا ہے۔ اس سبب سے اس کے ضرر سے بچنا مشکل ہو تا ہے۔ ہر ملک کا انسان سعودیہ عربیہ میں اس قانون پر عمل کرنے کا اثر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ کس درجہ وہاں انسدادِ جرائم کے سبب امن قائم ہے۔